مسیحائی کا حق ادا کرنے والی سوات کی باہمت نرس

(خصوصی رپورٹ) سیدو شریف تدریسی ہسپتال کے ’’کرونا وائرس بلاک‘‘ میں ہےڈ نرس اور دیگر عملہ نے17 روز سے کرونا سے متاثرہ مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے گھر اور بچے چھوڑ کر سچے مسیحا ہونے کی مثال قائم کردی۔ ہےڈ نرس فضیلت اکرام کا شوہر بیرونِ ملک ملازمت کرتا ہے۔اس کے تین بچے ہیں جن میں سب سے بڑا 13 سال اورچھوٹا 7 سال کا ہے۔ فضیلت نے کہا کہ کرونا وائرس کے بلاک میں کام کرنے والے عملہ کو احتیاطی تدابیر کے تحت گھر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد عملہ (خواتین و حضرات) پاس ہی مخصوص ہوٹل میں اپنے الگ الگ کمروں میں جاتا ہے اور اگلے دن واپس اپنی ڈیوٹی پر آتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ مشترکہ خاندان میں رہتی ہے۔ بچے اور وہ ایک دوسرے کو یاد کرتے ہیں۔ وہ جب بھی بچوں سے فون پر بات کرتی ہے، تو بچے ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ آپ گھر کب آئیں گی؟ اُس نے کہا کہ اِس وقت آفت جیسی صورتحال ہے اور ان مریضوں کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے جس کے لیے ہمیں قربانی دینی ہے۔فضیلت کے بقول انہیں دیگر عملہ سمیت کرونا مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے۔
کرونا وائرس کے بلاک میں کام کرنے والا ہسپتال کا تمام عملہ بھی کرونا سے متاثرہ مریضوں کی طرح وقت گزارتا ہے۔ فضیلت اکرام کے مطابق جس طرح کرونا سے متاثرہ افراد کے لیے احتیاطی تدابیر ہیں، ٹھیک اس طرح ہسپتال کے عملہ کے لیے بھی ہیں۔ ڈیوٹی سے چھٹی کے بعد عملہ کے افراد کو کسی کے ساتھ ہاتھ ملانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جب وہ ہوٹل میں اپنے کمرے میں جاتے ہیں، تو ان کو بھی متاثرہ مریضوں کی طرح کھانا ڈسپوزِبل پلیٹوں میں دیا جاتا ہے۔ عملہ کے جن ارکان کو چھٹی دی جاتی ہے، ان کو پہلے چودہ دن ہوٹل کے کمرے میں قرنطینہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کا کرونا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ جب ٹیسٹ منفی آتا ہے، تبھی ان کو گھر جانے دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کے کمرے کو صاف کرکے ہسپتال کے عملہ کے دوسرے رکن کو دیا جاتا ہے۔
فضیلت اکرام نے یہ بھی بتایا کہ ان کے پاس کرونا کے جتنے مریض ہیں، ان کے ساتھ عملہ کے علاوہ کسی کو ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ’’ہم نے اس بلاک میں عملہ اور مریضوں کے درمیان گھر جیسا ماحول بنالیا ہے۔ جب کوئی صحت یاب ہوکر گھر جاتا ہے، تو ہم پورا سٹاف اس کو گلدستے پیش کرکے رخصت کرتے ہیں۔ گھر جانے کی خوشی اور ہم سے جدائی کے غم میں اکثر ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ جب بھی کوئی مریض صحت یاب ہوکر گھر جاتا ہے، تو ہمارے بلاک کے عملہ میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ اس طرح جب کوئی جاں بحق ہوتا ہے، تو بلاک کے عملہ میں ایسی کیفیت ہوتی ہے جیسے ہمارے ہی گھر کا کوئی فرد وفات پاگیا ہو۔ سٹاف کے عملہ کے ارکان روتے ہیں اور جب ہسپتال میں ان کی نمازِ جنازہ ہوتی ہے، تو تمام عملہ اس کو دیکھتا ہے اور رخصتی تک وہاں کھڑا رہتا ہے۔‘‘