موبائل کی گھنٹی بجی۔ فون اُٹھایا، تودیکھا واٹس ایپ پر کسی نامعلوم نمبر سے پیغام موصول ہوا تھا۔ مَیں نے کھول کر پڑھنا شروع کیا: ’’سر! پہچانا مجھے……؟ مَیں دانش……! وہ جو باسکٹ بال کھیلا کرتا تھا۔‘‘ مَیں نے ذہن پر تھوڑا زور دیا اور دوسرے ہی لمحے ایک کوندا سا لپکا: ’’ہاں، تم مجھے یاد ہو……! تم ایک اچھے پلیئر تھے۔ مَیں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں؟‘‘ دانش کی طرف سے دو تین منٹ بعد نیا پیغام جو قدرے لمبا تھا، کچھ یوں موصول ہوا: ’’سر، پھر تو آپ کو وہ دن بھی یاد ہوگا جب انڈر ٹوینٹی تھری ڈسٹرکٹ باسکٹ بال ٹرائلز جاری تھے اور مجھے کالج میں سزا کے طور پر روکا گیا تھا۔ میرے اندر ایک طوفان بپا تھا۔ آنکھیں کئی بار اشکوں سے بھر آئیں، مگر آنسو چھلکنے نہ دیے۔ اسی اثنا میں آپ دور سے آتے دکھائی دیے اور میرے سامنے سے گزرے۔ اب پتا نہیں آپ نے کیا محسوس کیا، دو چار قدم آگے گئے اور وہاں سے الٹے قدموں واپس آئے۔ اس کے بعد آپ نے مجھ سے پوچھا، کیوں بھئی! خیر تو ہے؟ مَیں نے جواباً کہا کہ سر، گراؤنڈ میں ٹرائلز ہیں اور مجھے شرکت کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ آپ نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کہا، ’’تو بھاگ کیوں نہیں جاتے؟‘‘ سر، وہ دن آپ کو یاد ہے؟‘‘ مَیں نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر آپ یاد نہ دلاتے، تو شائد ہمیشہ کے لیے بھول جاتا۔‘‘ اس کے بعد دانش نے ایک آڈیو پیغام بھیجا جس کا لبِ لباب کچھ یوں ہے: ’’سر! آپ یقین کیجیے اگر مَیں اُس روز سکول سے نہ بھاگتا، تو آج کبھی پشاور یونیورسٹی میں نہ پڑھ رہا ہوتا۔ آپ کے اُن الفاظ کی بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے کہ ’’بھاگ کیوں نہیں جاتے، اگر کالج انتظامیہ کو پتا چلا، تو ایک ساتھ گھر جائیں گے، اس میں کیا ہے؟‘‘ اُس روز آپ کے اُکسانے پر مَیں کالج سے کیا بھاگا کہ تقدیر ہی بدل گئی۔ اول ڈسٹرکٹ ٹیم کا حصہ بن گیا۔ اُس کے بعد دروازے جیسے خود بخود کھلتے چلے گئے۔ملاکنڈ ڈویژن کی ٹیم میں سلیکشن کے بعد بڑا کیمپ سج گیا، جس میں یونیورسٹی کے کوچ آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے جب میرا کھیل اور جنون دیکھا، تو پیشکش کی کہ ایف ایس سی کا امتحان دینے کے بعد سیدھا اسلامیہ کالج یونیورسٹی آنا۔ نتیجہ نکلا تو کارکردگی انتہائی خراب، بمشکل 624 نمبر ہی لے پایا۔ سر، آج مَیں جس کلاس میں بیٹھا ہوں، بخدا! اس میں 888 نمبرات حاصل کرنے والا وہ آخری بندہ تھا جسے داخلہ ملا تھا۔ سر! آپ کی بات سولہ آنے ٹھیک تھی کہ ’’کبھی کبھار چھکا مارنے کے لیے کریز سے نکل کر رسک لینا ہی پڑتا ہے۔‘‘
قارئینِ کرام! بورڈ کے امتحانات شروع ہوچکے ہیں۔ ہم سب نے اپنے اپنے دماغ میں یہ بات بٹھالی ہے کہ اگر ہمارا بچہ اچھے نمبرات نہیں لے پایا، تو یہ زندگی میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرسکے گا۔ اور یہ آگے جا کر اچھے کالج یا اچھی یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے پائے گا۔ اچھے نمبروں کے حصول کے لیے ہم نے نہ صرف اپنا چین و سکون برباد کرکے رکھ دیا ہے، بلکہ اپنے بچوں کو بھی عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ تمہید میں بیان کی جانے والی دانش عالم کی کہانی اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہے کہ نمبرات آپ کے بچے کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کی ہرگز ترجمانی نہیں کرسکتے۔ اپنے 18، 19 سالہ تدریسی تجربہ کی بنیاد پر مَیں یہ بات دعوے سے کہتا ہوں کہ جو بچہ کم نمبر لیتا ہے، یا اسے ناکامی کا منھ دیکھنا پڑتا ہے، وہی آگے جاکر نام کماتا ہے۔ بیک بینچرز اور اوسط نمبر حاصل کرنے والے ہی نام کماتے ہیں اور پورا نظام چلاتے ہیں۔ اگر نہیں مانتے، تو چلیے آپ کو مَیں اپنے ’’تھری ایڈیٹس‘‘ سے ملواتا ہوں، جو میٹرک یا FSC تک نکمے سمجھے اور پکارے جاتے تھے۔
سرِ دست فرسٹ ایڈیٹ کی کہانی ملاحظہ ہو۔ آج سے کوئی پانچ یا چھے سال پہلے سکول میں ایک سائنس میلے کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں بچوں نے زبردست قسم کے ماڈل تیار کرکے رکھے تھے۔ مجھے سکول انتظامیہ کی جانب سے پروگرام کی کوریج کا کہا گیا۔ مَیں نے میلے میں موجود طلبہ سے کہا کہ آپ میں سے کوئی طالب علم ایسا ہے جو کیمرے کے سامنے ایک اینکر کے طور پر چند جملے ادا کرنے کا فرض انجام دے؟ دراصل مجھے کسی طالب علم کا پی ٹی سی (پیس ٹو کیمرہ) درکار تھا۔ ایک چودہ پندرہ سالہ بچہ عزم و ہمت کے ساتھ دو قدم آگے آیا، اور کہا: ’’سر! ٹرائی کرلوں؟‘‘ بچے کا لب و لہجہ اور سکرین بیوٹی اسے دیگر بچوں سے ممتاز بنا رہی تھی۔ مَیں نے اسے مائک تھماتے ہوئے تین جملوں پر مشتمل ایک کاغذ بھی تھمایا اور کہا کہ پانچ منٹ میں کیمرہ آن کیا جائے گا۔ پانچ منٹ بعد بچے نے بغیر کسی سنگل ری ٹیک کے پی ٹی سی کیا، اور کچھ اس انداز سے کیا کہ مجھے اس کی پیٹھ تھپکانا پڑی۔ میرے الفاظ تھے (جو بعد میں مذکورہ بچے نے اپنے فیس بُک وال پر بھی دیے تھے): ’’بھئی، اس کے لیے تالیاں بجائیں۔ یہ مستقبل میں بہت بڑا صحافی بنے گا۔‘‘ اس بچے کو آج چھے سات سال بعد بڑے بڑے صحافی ملتے ہوئے احتراماً کھڑے ہوتے ہیں۔ جی ہاں! وہ بچہ، وہ ایڈیٹ کوئی اور نہیں ’’احسان علی خان‘‘ ہے، جو محض اکیس بائیس سال کی عمر میں ’’لفظونہ ڈاٹ کام‘‘ کا ایڈیٹر، ملاکنڈ ڈویژن کے لیڈنگ اخبار روزنامہ آزادی کا سب ایڈیٹر اور پاکستان کے چوٹی کے نشریاتی ادارے جیو نیوز کے ساتھ بلاگر کے طور پر منسلک ہیں۔ میٹرک میں احسان علی خان فیل ہوتے ہوتے بچے تھے۔ ان کے والدِ بزرگوار ایک شفیق انسان ہیں۔ انہوں نے احسان کو کالج میں بھیجتے ہوئے تاکید کی تھی کہ ’’پری میڈیکل‘‘ ہی میں داخلہ لینا۔ اس ایڈیٹ نے جاکر آرٹس میں داخلہ لے لیاجس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مجھے یاد ہے ایک روز احسان آفس آیا، تو کہنے لگا کہ’’ ابّو مجھ سے نالاں رہنے لگے ہیں۔‘‘ مجھے اپنا جواب بھی یاد ہے، مَیں نے اسے کہا تھا: ’’احسان، یاد رکھنا ایک دن آپ کے والدِبزرگوار آپ پر فخر کریں گے۔‘‘ محض 17، 18 سال کی عمر جب یہ ’’ایڈیٹ‘‘ خیبر نیوز میں ’’ڈسٹرکٹ نیوز کاسٹر‘‘ کے طور پر منتخب ہوا، تو والدِ بزرگوار نے اپنے جگر گوشے کا پہلا خبر نامہ فخر کے ساتھ اپنے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ پر شیئر کیا۔
اب دوسرے ایڈیٹ کی کہانی ملاحظہ ہو۔ کلاس خلافِ معمول کافی بور قسم کی جا رہی تھی۔ بچوں نے فرمائش کی کہ ’’سر، کوئی مترنم غزل ہوجائے، بالکل مزا نہیں آ رہا۔‘‘ اس دن چوں کہ دو تین لیکچرز دینے کے بعد میرا گلہ بیٹھ گیا تھا، اس لیے معذرت کی۔ لڑکوں بالوں نے کہا کہ ہے ایک بے سُرا، اُسے ہمارے ذہنوں پر ہتھوڑا برسانے کی اجازت دی جائے۔ مَیں نے بھی مغلِ اعظم کی طرح ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے کہا، ’’اجازت ہے!‘‘ ایک دھان پان، سانولا سلونا، مشتِ استخواں سا لڑکا اُٹھا اور پشتو کی غزل شروع کی۔ غزل جوں ہی ختم ہوئی، تو مَیں بے اختیار اپنی جگہ سے اُٹھا اور تالیاں بجاتے ہوئے کہا: ’’ارے واہ! کیا گلا پایا ہے۔ تم بہت جلد دنیائے موسیقی میں نام کماؤگے۔ وہ دن دور نہیں جب تمہارے میوزک کنسرٹ میں ہمیں نشست نہیں ملے گی اور ہاؤس فل ہوگا۔ خدا کی کرنی، جب اس ایڈیٹ کا پہلا کنسرٹ تھا، تو اُسے مَیں یاد تھا۔ اس نے مجھے کال کی۔ مَیں اِسی ادارتی صفحہ کی نوک پلک سنوارنے میں مصروف تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک نامعلوم نمبر سے آنے والی کال اٹھالی۔ دوسری طرف سے آواز آئی، ’’سر! مَیں آپ کا ایڈیٹ……! سر، میری زندگی کا پہلا کنسرٹ ہے۔ آپ اس میں ضرور شرکت کیجیے۔ پون گھنٹا بعد پروگرام شروع ہوگا۔ مجھے خوشی ہوگی، اگر آپ اس میں شرکت فرمائیں۔‘‘ پہلے تو عجیب سا لگا، پھر بادلِ نخواستہ گرین پلازہ (گرین چوک) کی طرف چل پڑا۔ جیسے ہی گیٹ پر پہنچا، تو وہاں نوجوانوں کی ایک قِطار لگی دیکھی۔ جیسے تیسے گیٹ تک پہنچا، تو وہاں کھڑے گارڈز نے کہا کہ سر، ہاؤس فُل ہے۔ مجھے دفعتاً اپنے الفاظ یاد آگئے کہ ’’وہ دن دور نہیں جب تمہارے میوزک کنسرٹ میں ہمیں نشست نہیں ملے گی، ہاؤس فُل ہوگا۔‘‘ میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ واقعی استاد اپنے شاگرد کو جو بنانا چاہے، بنا سکتا ہے۔ بقولِ شاعر
یوں تو پتھر کی بھی تقدیر بدل سکتی ہے
شرط یہ ہے کہ اسے دل سے تراشا جائے
ابھی بمشکل دس پندرہ منٹ کا فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ اُس ایڈیٹ کی دوبارہ کال آئی، ’’سر! آپ کہاں ہیں؟ مَیں آپ کے بغیر پروگرام شروع نہیں کروں گا۔ ‘‘ مَیں نے سر درد کا بہانا بنایا، اور واپس دفتر چلا گیا۔ جاننا چاہیں گے وہ ایڈیٹ کون ہے؟ وہ کوئی اور نہیں، شہاب شاہین ہے۔
اب تیسرے اور آخری ایڈیٹ کی کہانی ملاحظہ ہو۔ لحیم شحیم، میانہ قد، گول مٹول سا چہرہ، گول گول آنکھیں،بولنے کا دھیما سا انداز اور فٹ بال کا حد درجہ شوقین یہ ایڈیٹ روزِ اول سے میری توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔ پڑھنے سے اس کو ایک بھی فی صد دلچسپی نہیں تھی، مگر اسے پروردگار نے زبردست قسم کی انتظامی صلاحیتیں دی تھیں۔ سالِ دوم میں ان کی کلاس سے شیطان بھی پناہ مانگتا تھا۔ اس ایڈیٹ نے اپنے ہم نواؤں کے ساتھ پرنسپل کے آفس پر دھاوا بول دیا اور وہاں فارم ماسٹری کے لیے پرنسپل صاحب سے ’’میرا ہاتھ مانگ لیا۔‘‘ کوئی اور تو ویسے بھی ان کے منھ لگنا نہیں چاہتا تھا، اس لیے پرنسپل صاحب نے بسر و چشم مجھے ان کے حوالے کیا۔ ہر مہینے کی آخری تاریخ کو میرا حاضری رجسٹر یہ ایڈیٹ مکمل کرتا اور میں صرف دستخط کر دیتا۔ کلاس کا کوئی بھی مسئلہ ہوتا، ایڈیٹ موصوف مجھے آگاہ کیے بغیر اسے حل کردیتا۔ مجھے یاد ہے ایک دن بھری کلاس میں، مَیں نے اُسے کہا تھا کہ ’’اگر یہ ایڈیٹ مٹی کو بھی ہاتھ لگائے گا، تو وہ سونا بن جائے گی۔ یہ اگر میری سنتا ہے، تو اسے تھوڑی بہت پڑھائی کے بعد کار و بار جمانا چاہیے۔‘‘مانتے ہیں، وہ ایڈیٹ آج سوات میں آئی فونز کے بااعتماد ڈیلرز میں سے ایک ہے۔ اس کے ہم جماعت وہ ’’ٹاپرز‘‘ جو آج کل میڈیکل یا انجینئرنگ پڑھ رہے ہیں، اپنے والدین کا لاکھوں روپیہ خرچ کر رہے ہیں۔ پڑھائی کے بعد وہ پھر جاب تلاش کریں گے اور یہ ایڈیٹ ’’شہزاد اکبر‘‘ سوات یونیورسٹی سے ’’شریعہ اینڈ لا‘‘ میں داخلہ لینے کے ساتھ آئی فون کے امپورٹ ایکسپورٹ کا کار و بار بھی کرتا ہے۔ علیگرامہ کے معزز خاندان سے تعلق رکھتا ہے، ہر کسی کے کام آتا ہے اور دعائیں لیتا ہے۔
قارئینِ کرام! بخدا، کوئی ضرورت نہیں بورڈ کے امتحانات میں کسی کے پیر پڑنے کی۔ بورڈ کے نمبرات کسی کی قابلیت کی دلیل نہیں ہیں۔ اس تحریر میں دانش، احسان، شہاب اور شہزاد اکبر اپنے اپنے وقت کے ایوریج طلبہ رہ چکے ہیں۔ انہیں نکما، بے وقوف، ایڈیٹ اور پتا نہیں کیا کیا القاب مل چکے ہیں، مگر آج صرف چھے سات سال کے عرصہ میں یہ تمام پروف کرچکے ہیں کہ نمبرات کچھ شے نہیں۔ان ایڈیٹس کے لیے علاوہ بھی مَیں اپنے درجنوں ایسے طلبہ کو جانتا ہوں جن پر دفتر کے دفتر سیاہ کیے جاسکتے ہیں۔
قارئینِ کرام! شائد مَیں پہلے بھی اپنی ایک تحریر میں رقم کرچکا ہوں کہ سنہ 1996-97ء کو اُس وقت کے گورنمنٹ ہائی سکول وتکے یا سوات بورڈ کے ٹاپر کو کون جانتا ہے؟ جب کہ مذکورہ سال میٹرک کے امتحانات میں کیمسٹری کا مضمون فیل کرنے والا ’’سحابؔ‘‘ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔