عالمی یوم خواندگی اور پاکستان

عالمی یوم خواندگی اور پاکستان

نبی امی صلی اللہ علیہ و سلم کو غارِ حرا میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا پہلا پیغام تھا: ’’اقراء‘‘یعنی ’’پڑھ۔‘‘ غور کریں کہ اس پیغام سے علم کی کتنی اہمیت آشکار ہوتی ہے اور جب مسلمانوں نے معلم انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قول مبارک پر عمل کیا کہ ’’علم مومن کی گمشدہ میراث ہے، جہاں ملے وہاں سے حاصل کرے۔‘‘ پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ لوگ علم ہی کی بدولت دنیا پر چھا گئے۔ جہانگیری و جہانداری کی عظیم اور عالمگیر تہذیب کے حامل بن گئے اور غیروں نے ان سے علوم و فنون میں استفادہ کیا۔ نشاطِ اسلام کا زمانہ تھا، اس وقت بغداد، نیشاپور، بخارا اور الازہر وغیرہ علوم و فنون کے مراکز تھے جبکہ اس دور میں یورپ مکمل طور پر جہالت اور لاعلمی کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ آج وہی امت مسلمہ خود جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک کر غیروں کی دست نگر ہے ۔

ہر سال آٹھ ستمبر کو پاکستان سمیت ساری دنیا میں عالمی یومِ خواندگی منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1964ء سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام منایا جاتا ہے۔
ہر سال آٹھ ستمبر کو پاکستان سمیت ساری دنیا میں عالمی یومِ خواندگی منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1964ء سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام منایا جاتا ہے۔

ہر سال آٹھ ستمبر کو پاکستان سمیت ساری دنیا میں عالمی یومِ خواندگی منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1964ء سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام منایا جاتا ہے۔ چونکہ تعلیم ہی سے تعمیر سیرت اور تعمیر ملت ہوسکتی ہے، لہٰذا اس روز حکومت اور پاکستانی قوم اس بات کاعزم کرتے ہیں کہ وہ دنیا کی دیگر تعلیم یافتہ اقوام کی طرح خواندگی کا ہدف حاصل کریں گے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں غربت، مہنگائی اور عام آدمی کے حصولِ علم کی راہ میں رکاوٹوں نے قوم کو تعلیم جیسی نعمت سے محروم رکھا۔ سرمایہ دارنہ و جاگیر دار انہ نظام نے طبقاتی نظام تعلیم کو جنم دیا اور یہ طبقاتی نظام تعلیم شرح خواندگی بڑھانے میں رکاوٹ بنا رہا، حالانکہ تعلیم ایک قوم کی ہمہ گیر ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا قوم کے نام یہ اہم پیغام بھی ریکارڈ پر ہے کہ ’’تعلیم پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ تعلیمی میدان میں مطلوبہ پیشرفت کے بغیر ہم نہ صرف اقوام عالم سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا نام و نشان بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔ (کراچی،26 ستمبر 1947ء)

تعلیم پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ تعلیمی میدان میں مطلوبہ پیشرفت کے بغیر ہم نہ صرف اقوام عالم سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا نام و نشان بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔ (فوٹو: دی نیشن)
تعلیم پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ تعلیمی میدان میں مطلوبہ پیشرفت کے بغیر ہم نہ صرف اقوام عالم سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا نام و نشان بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔ (فوٹو: دی نیشن)

کہتے ہیں کہ اکیسویں صدی انگریزی زبان اور کمپیوٹر کی صدی ہے اور ہر شخص کا ان سے آگاہ ہونا ضروری ہے، لیکن ہمارے لئے تو یہ خواب و خیال کی باتیں ہیں بلکہ ہمارا اہم قومی مسئلہ تو خواندگی کا ہدف حاصل کرنا ہے، یعنی معمولی پڑھے لکھے افراد میں اضافہ، جبکہ شرح خواندگی میں ہم ایران، افغانستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں۔ خواندگی کے حوالے سے دنیا کے ایک سو بیاسٹھ ممالک میں پاکستان ایک سو بیالیس نمبر پر ہے، جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔

ہمارا اہم قومی مسئلہ خواندگی کا ہدف حاصل کرنا ہے، یعنی معمولی پڑھے لکھے افراد میں اضافہ، جبکہ شرح خواندگی میں ہم ایران، افغانستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں۔
ہمارا اہم قومی مسئلہ خواندگی کا ہدف حاصل کرنا ہے، یعنی معمولی پڑھے لکھے افراد میں اضافہ، جبکہ شرح خواندگی میں ہم ایران، افغانستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں۔

موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے تعلیم کو پہلی ترجیح قراردیا ہے۔ اس سلسلے میں سکولوں میں داخلہ مہم سارا سال جاری رہتی ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں حکومت نے تعلیمی ایمر جنسی نافذ کی ہے، لہٰذا اس پر بلا روک ٹوک عمل کو یقینی بنایا جائے۔ اس روز پاکستانی قوم یہ عہد کرے کہ تعلیم اس کی پہلی ترجیح ہوگی۔ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان مبارک ہے کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘ لہٰذا اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مد نظر رکھ کر ہمیں جہالت اور ناخواندگی کے خلاف بھرپور جدوجہد کرنی چاہیے۔ پاکستانی قوم اکیسویں صدی میں محوِپرواز ہے۔ اس لئے شرح خواندگی میں اضافہ کو قومی فریضہ سمجھ کر اسے ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ کیونکہ دورِ جدید کے چیلنجوں کا مقابلہ تعلیم یافتہ اقوام ہی کرسکتی ہیں۔