سارے خدشات ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ اتنے دنوں کی دوری سے صرف اتنا فرق پڑا تھا کہ میرے چہرے کی پگڈنڈیاں اپنی تازگی اور بھولپن سے محروم ہوچکی تھیں۔ وقت کے چوبی پہیوں نے انھیں دھول سے اٹے ہوئے راستوں میں بدل دیا تھا۔ میرے بالوں کی سیاہ رات میں اک سویرے نے سفید جھنڈے لہرانے شروع کردیے تھے۔
دوسری جانب شہر کے سینے پر بدتمیزی سے اچھلتے ہوئے چند عمارتوں نے میری آنکھوں میں اپنائیت کی تحریر کو پڑھنے سے انکار کردیا جب کہ پرانے راستوں پر بنے ہوئے نئے پلوں نے میرے قدموں کی چاپ پہچان لی اور پھر اس شہر نے میرے لیے اپنے سارے دروازے کھول ڈالے، پندرہ سولہ سال کے طویل فاصلے بیچ میں سے اٹھ گئے۔ سہراب گوٹھ، واٹر پمپ، عائشہ منزل، کریم آباد، لیاقت آباد، تین ہٹی، گرو مندر نمائش، صدر سے ہوتی ہوئی جب ٹیکسی مجھے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے قریب واقع فلیٹس کے احاطے میں چھوڑ گئی، تو رد کیے جانے کا خوف اور طویل عرصہ کے بعد دوستوں سے ملنے کی خوشی دونوں نے میرا گھیراؤ کرلیا تھا۔ سیڑھیوں نے تومجھے پہچان لیا۔ دروازے کے تاثرات بھی جلد ہی انکار کا دائرہ توڑ کر اقرار کے احاطے میں آگئے۔ گھنٹی نے تھوڑی سی سرد مہری کا مظاہرہ کیا، لیکن انور اور عذرا کی خوشی ایک قہقہہ کی صورت میرے دل میں بہت اندر تک پھیل گئی اور وہ موہوم خوف اپنی موت آپ مر گیا۔
کراچی نہیں بدلا۔ ویسا ہی ہے۔ بظاہر لاتعلق اپنے بکھیڑوں میں الجھا ہوا، جذبات سے عاری، لیکن اندر سے بالکل مختلف وہی پرانا شہر دوستی یاری پر جان دینے والا۔ دن میں سنجیدگی سے اپنے کام میں جتا ہوا۔ ’’محنت میں عظمت ہے‘‘ کی تصویر اور رات میں دوستوں کی گپ شپ کے لیے ہر طرف چاندنی بچھی ہوئی۔
سپر ہائی وے ’’کلفٹن‘‘ برنس روڈ، لسبیلہ ہر جگہ کھانے کی خوش بو محبتوں کی تجدید میں مصروف، گھروں کے کھلے آسمان تلے باتوں کے ذریعے ایک دوسرے کی زندگیوں میں جھانکتے ہوئے۔ تھکاوٹ، اکتاہٹ اور یکسانیت کے عفریت کو شکست دیتے ہوئے۔ یہ شہر نہیں مرسکتا، گزشتہ برسوں کی تلخی کو اس نے کتنی جلد اپنی پیشانی سے دھو ڈالا ہے۔ وہ جو ایک خدشہ تھا میرے دل میں کہ پتا نہیں میری زندگی کے وہ بیس سال جو اس شہر کی نذر کر ڈالے تھے۔ دوبارہ مل سکیں گے یا نہیں۔ ان کا کھوج لگ سکے گا یا نہیں۔ وہ خدشہ بے بنیاد ثابت ہوا۔ شہر نے وہ سب واپس کردیے۔ آفتاب ندیم کا کسی نے کچھ نہیں بگاڑا۔ اپنی ڈگری اور عہدہ کی جگہ اب بھی جملے بازی سے سب کا منھ توڑتا ہوا اور اس میں اپنی درگت بناتا ہوا۔ قیصر عالم وہی کا وہی صرف داڑھی کے ایک معمولی اضافے کے ساتھ اپنی ذہانت کی مار سے نڈھال، وسعت اللہ خان اسی طرح بے پروائی کے اوورکوٹ میں ملفوف، مواحد سلطان سدا بہار قہقہوں کی کان، زاہد حسین حالیہ کامیابیوں کے باوجود ماضی کی گلیوں میں دھول اڑانے کے لیے تیار، ڈاکٹر الطاف اسی طرح لمحہ موجود کی سرخوشی کے لیے ماضی و مستقبل کے جہان برباد کرنے پر آمادہ، جاوید صغیر احمد شاہ، قیصر محمود، اشتیاق سیفی، اخلاق، تبسم، کلیم سلیم مغل، سب ابھی موجود ہیں۔ آصف فرخی جنوں کی طرح لکھنے پڑھنے میں لگا ہوا، اجمل کمال آج کی روشوں پر سبزہ و پھول لگانے میں ڈوبا ہوا، افضال احسان، سہیل، طاہر مسعود محمود غزنوی، صدف اقبال بھی اسی طرح موجود ہیں۔ قمر جمیل اور افتخار جالب بھی اسی شہر کا حصہ ہیں اور ٹامس اینڈ ٹامس بھی ابھی تک کھلی ہوئی ہے…… کیا یہ سب اس بات کا کافی ثبوت نہیں کہ کراچی اب بھی تمھارا ہے، تمھارے ماضی کو اس نے سنبھال کر رکھا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔