دو دوست، ابنِ رشد اور ابنِ طفیل

مسلم تاریخ کی چند عظیم شخصیات کا تعلق مسلم اسپین سے ہی تھا۔ بارھویں صدی کے طبیب، فلسفی اور ارسطو اور افلاطون کے مفسر اور معقولات کے عظیم مفکر ابن رشد کی زندگی بھی مشکلات میں ہی گزری۔ وہ قرطبہ کے قدیم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔وہ قاضی بھی رہے ۔ بعد میں انھوں نے اعلان کیا کہ جو بھی انسانی اعضا کے بارے میں علم حاصل کرلے گا اللہ پر اس کا ایمان اور راسخ ہوجائے گا۔ وہ موحد حکم ران یوسف اور یعقوب کے میر خاص بھی رہے۔ اکمل الدین احسان اوغلو نے ان پر جو تھیسس لکھا ہے اس کا عنوان ہے "مسلم تہذیب کو یورپ کی دین۔” ٹامس ایکویناس اور دانتے نے یونانی فلسفہ یونانی زبان سے نہیں سیکھا بلکہ ابن رشد کی شرح اور ان کے اضافہ سے سیکھا۔ چوں کہ وہ معقولات کے فلسفی مانے جاتے ہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ انھیں تصوف سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ حالاں کہ وہ تصوف سے بہت متاثر تھے۔
ابن رشد کے سب سے قریبی دوست بلکہ مربی فلسفی ابن طفیل تھے۔ انہوں نے ایک ناول لکھا جس کا بعد میں The living son of the awake کے نام سے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ اس میں سے اس امکان پر غور کیا گیا ہے کہ کسی استاد کے بغیر خود ہی نیچرل سائنس، فلسفہ اور مذہب کی تعلیم کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار حئی ایک دور افتادہ جزیرہ میں رہتا ہے اور قدرتی مناظر اور عناصر قدرت کا بغور جائزہ لیتا رہتا ہے۔ وہ سادہ ورق ہے جس پر ابھی کچھ بھی نہیں لکھ گیا ہے۔ وہ اپنے مشاہدے اور فلسفیانہ تفکر کی بنا پر سچائی تک پہنچ جاتا ہے۔ عین اس وقت جب حئی اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ وہ اس دنیا میں بالکل تنہا ہے, تو ایک اور شخص "اصل” وہاں آتا ہے۔ وہ شخص جو خالص مذہبی ماحول میں پلا بڑھا ہے، دنیا سے کنارہ کش ہوکر وہاں آیا ہے۔ حئی اور اصل دیکھتے ہیں کہ وہ دونوں فلسفیانہ طور پر ایک ہی نتیجہ پر پہنچے ہیں۔ اب وہ دونوں دنیا کو اپنا ہم خیال بنانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن دنیا انھیں قبول نہیں کرتی۔ آخر میں وہ مایوس اور بددل ہوجاتے ہیں۔ انگریز مستشرق ایڈورڈ پولوک نے اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا، تو سترھویں صدی کے یورپ میں حئی کا کردار خوب مشہور ہوا۔ عیسائیوں کا کویکر فرقہ اس سے متاثر ہوا اور ڈینیل ڈیفوکے ناول Robinson Crusoe کا ماڈل بھی یہی کہانی ہے۔
(ضیاء الدین سردار کی تصنیف ’’جنت کے لیے سرگرداں‘‘ باب نمبر14، صفحہ نمبر 300 اور 301 سے انتخاب)