چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہ جائے (کہاوت کا پس منظر)

عادت چھوٹنے پر بھی کچھ نہ کچھ اثر رہ جاتا ہے۔ بُری عادت آسانی سے نہیں جاتی۔
اس کہاوت کے وجود کے تعلق سے ایک لوک کہانی یوں بیان کی جاتی ہے:’’ایک چور کئی بار چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑا گیا۔ کئی بار اس کو سزا بھی بھگتنا پڑی۔ بار بار چوری کرنے، گرفتار ہونے اور بار بار سزا بھگتنے کی زندگی سے جب وہ تنگ ہوگیا، تو اس نے چوری کرنے سے توبہ کرلی، اور باقی زندگی شرافت سے گزارنے کا عہد کیا۔ وہ سادھوؤں کی ٹولی میں شامل ہوگیا اور شرافت کی زندگی گزارنے لگا۔ سادھوؤں کے پاس ایسی تو کوئی چیز نہ تھی جسے چرایا جاسکے۔ اپنی عادت سے مجبور ہونے کے سبب وہ سادھوؤں کی چیزوں کو اِدھر اُدھر کیا کرتا۔ جب سادھو سوجاتے، تو وہ ایک سادھو کی گٹھڑی کو دوسرے سادھو کے پاس اور دوسرے کی گٹھڑی کو پہلے سادھو کے سر کے نیچے رکھ دیتا۔ سادھوؤں کی جب آنکھ کھلتی، تو وہ اپنی اپنی گٹھڑیوں کو ڈھونڈتے اور پریشان ہوتے۔ اس کا روزانہ کا یہی معمول تھا۔ ایک دن جب سادھوؤں کو اُس کی اِس حرکت کا پتا چل گیا، تو انہوں نے اس کا سبب پوچھا کہ تو ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ سادھو ہونے سے پہلے میں چور تھا۔ اگرچہ مَیں نے چوری کرنا چھوڑ دی ہے، مگر اپنی پرانی عادت سے مجبور ہوں۔ من نہیں مانتا، اسی لیے ہیراپھیری کر لیتا ہوں۔ اس کا یہ جواب سن کر ایک سادھو نے کہا، چور چوری سے گیا، تو کیا ہیرا پھیری سے بھی گیا۔‘‘
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 140اور 141 سے انتخاب)