بقولِ کسے ’’آج وطنِ عزیز کا یہ حال ہے کہ جس پتھر کو اُٹھاؤ، نیچے سے کرپشن کی دیمک سر اُٹھائے گی۔‘‘
قومی وسائل کی لوٹ مار اور خزانے کا پیسا طبقۂ مقتدرہ اور بیوروکریسی اپنا حق سمجھتی ہے، بلکہ حکمرانانِ وقت اور بیوروکریسی معمولی بیماری کے علاج کے لیے یا تو بیرونِ ملک جاتے ہیں، یا علاج معالجہ کے لیے قومی خزانے سے لاکھوں اور کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک گھمبیر معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ نتیجتاً روز افزوں مہنگائی کا سونامی اور بے روزگاری کا سیلاب مزید تباہی لارہے ہیں۔ موجودہ نسل کو شاید یہ بات معلوم نہ ہو کہ ہمارے ملک پاکستان نے کبھی ایسے حکمران اور سیاست دان بھی دیکھے ہیں جن کا کردار تاریخ میں بہ طورِ مثال امر ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مردِ درویش جو اس ملک کے اہم اور کلیدی عہدے پر فائز رہ چکے ہیں، کا ایک واقعہ نذرِ قارئین ہے: ’’1956ء کا آئین جس میں مشرقی پاکستان بھی تھا، کی تیاری اور نفاذ میں وزیرِ اعظم چودھری محمد علی (مرحوم) کی مشقت اس قدر شدید رہی کہ یہ آئین، مشرقی اور مغربی پاکستان کے بیچ اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کی پہچان بن گیا۔ اس کارنامے کے باوجود جب ان کی جماعت مسلم لیگ کی ایوان میں اکثریت نہ رہی، تو اس خوش اطوار اور نیک چلن وزیراعظم نے رونے دھونے اور اس میں سازش کھوج کر ملک کو انتشار میں دھکیلنے کے بجائے پُروقار طریقے پر وزارتِ عظما سے استعفا دے دیا۔ 1956ء کے آئین کی تیاری اور نفاذ میں کی گئی شبانہ روز محنت نے ان کی صحت خراب کر ڈالی۔ اس وقت کے صدر سکندر مرزا نے ملکی خدمات کے اعتراف میں انہیں سرکاری خرچ پر علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنا چاہا، لیکن چودھری صاحب نے یہ پیشکش ٹھکرا دی کہ قومی خزانے کے ذاتی استعمال میں ان کا کوئی حق نہیں۔ صدر اور کابینہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ کیا کیا جائے؟ آخر خاصی سوچ بچار کے بعد طے پایا کہ چودھری صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ حکومت سے قرض لے کر علاج کے لیے باہر جائیں۔ ان کی درخواست پر مطلوبہ رقم فراہم کی گئی اور چودھری صاحب علاج کے لیے باہر چلے گئے۔ وطن واپس آئے اور چھے ماہ بعد قرض کی رقم حکومتِ پاکستان کو واپس لوٹا دی۔
آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبالے کر
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔