سرتور فقیر

سرتور فقیر کے بارے میں یہ باتیں بھی مشہور ہیں کہ ملاکنڈ کی جنگ کے وقت اس نے لوگوں سے کہا کہ دشمن کی طرف ریت پھینکنا اور جب لوگوں نے ایسا کیا، تو ریت نے بھڑوں کی شکل اختیار کرلی جو دشمن کے پیچھے پڑگئیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاد کے وقت وہ اپنی لاٹھی دریا میں ڈالتے اور لوگوں سے کہتے کہ آنکھیں بند کرکے دریا کو عبور کریں، اور پھر جب وہ آنکھیں کھولتے ، تو دریا کے دوسرے کنارے پر خود کو کھڑا پاتے ۔ لیکن یہ بھی مشہور ہے کہ جب بھی وہ دریا پار کرتے ، تو کشتی کی مدد حاصل کرتے ۔

سرتور فقیر کا اپنا نام سعد اللہ خان تھا۔ وہ لیونے ملا، لیونے فقیر یا ملا مستان بھی کہلایا جاتا تھا۔ برسوات میں وہ ’’سر تور فقیر‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ جنون کی حد تک انگریز حکومت کا مخالف تھا۔ اس لئے ’’ملا مستان‘‘ یا ’’لیونے ملا‘‘ کہلایا۔ پہلے پہل اسے برسوات میں ’’بونیر وال‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے ۔
سرتور فقیر بونیر کے ریگا نامی گاؤں میں سنہ 1820ء یا 1830ء کے لگ بھگ پیدا ہوا تھا۔ اس کے والد کا نام حمید اللہ تھا۔بعض کتب میں اسے ’’بونیر وال ملک‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ اس کاتعلق ابازیٔ قبیلے کے ساتھ تھا۔ ابازی، یوسف زی ملیزی اور پھر نوریزی قبیلے کی ایک شاخ ہے ۔ سرتور فقیر جوانی میں کبڈی کا ماہر اور زبردست کھلاڑی تھا۔ اس نے بچپن سے مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اجمیر (ہندوستان) تک گیا۔ وہ ہندوستان کے علاوہ افغانستان بھی گیا ہے ۔ مختلف حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ پہلے ہندوستان اور بعد میں افغانستان گیا ہے ۔ وہ سنٹرل ایشیا بھی گیا ہے اور آخرمیں مزار شریف میں مقیم ہوا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اس نے دس سال مزار شریف میں گزارے ہیں اور اس کے بعد کابل گیا ہے ۔

سرتور فقیر کے پوتے معمبر خان اور ہمایون خان اس کی مذہبی تعلیم کے بارے میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ سرتور فقیر کے بھائی کا ایک پوتا مدار خان کہتا ہے کہ اس (سرتور فقیر) نے تعلیم سرے سے حاصل ہی نہیں کی تھی۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ سرتور فقیر کے کتنے بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔ اس نے مختلف جگہوں میں شادیاں کی تھیں اور مختلف جگہوں میں سکونت اختیار کی تھی جن میں بونیر کا علاقہ ’’ریگا‘‘ اور سوات کا فتح پور شامل ہیں۔ اس نے فتح پور میں آخری شادی سے پہلے دو اور شادیاں کی تھیں۔
سرتور فقیر کے پوتے معمبر خان اور ہمایون خان اس کی مذہبی تعلیم کے بارے میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ سرتور فقیر کے بھائی کا ایک پوتا مدار خان کہتا ہے کہ اس (سرتور فقیر) نے تعلیم سرے سے حاصل ہی نہیں کی تھی۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ سرتور فقیر کے کتنے بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔ اس نے مختلف جگہوں میں شادیاں کی تھیں اور مختلف جگہوں میں سکونت اختیار کی تھی جن میں بونیر کا علاقہ ’’ریگا‘‘ اور سوات کا فتح پور شامل ہیں۔ اس نے فتح پور میں آخری شادی سے پہلے دو اور شادیاں کی تھیں۔

سرتور فقیر کے پوتے معمبر خان اور ہمایون خان اس کی مذہبی تعلیم کے بارے میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ سرتور فقیر کے بھائی کا ایک پوتا مدار خان کہتا ہے کہ اس (سرتور فقیر) نے تعلیم سرے سے حاصل ہی نہیں کی تھی۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ سرتور فقیر کے کتنے بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔ اس نے مختلف جگہوں میں شادیاں کی تھیں اور مختلف جگہوں میں سکونت اختیار کی تھی جن میں بونیر کا علاقہ ’’ریگا‘‘ اور سوات کا فتح پور شامل ہیں۔ اس نے فتح پور میں آخری شادی سے پہلے دو اور شادیاں کی تھیں۔ روشن خان لکھتے ہیں کہ اس کی فوتگی کے وقت چار بیٹیاں او ر ایک چار سالہ بیٹا عمرا خان اس کے سوگواروں میں شامل تھے ۔ فتح پور (سوات) میں اس کی اولاد کے علاوہ بونیر ریگا میں بھی اس کے چار بیٹے آزاد خان، عبداللہ، مجیب اللہ اور امیر افضل تھے ۔ آزاد خان سوات آیا تھا۔ اس نے ساتال (مدین) میں رہائش اختیار کی تھی۔ عبداللہ، سرتور فقیر کی زندگی میں ہی سدھار گیا تھا اور باقی دو بیٹے ریگا (بونیر) میں رہ گئے تھے ۔کانڑا میں سرتور فقیر کا ایک اور بیٹا امیر فقیر بھی تھا۔ ایک بیٹی باچا زرینہ بشام میں تھی۔ امیر فقیر ریاست سوات کی فوج میں ایک چھوٹے درجے کا افسر تھا۔ایک بیٹا عمرا خان جو فتح پور میں رہتا تھا، سنہ 1988ء کو فوت ہوچکا ہے ۔
سرتور فقیر نے اپنے بھائی کے ساتھ جھگڑا کیا تھا اور اسے جان سے مار دیا تھا (بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ موت اتفاقی تھی)۔ اس وجہ سے وہ بونیر سے فرار ہوکر ہندوستان چلا گیا تھا۔ لیکن سرتور فقیر کے ایک بھائی زاہد اللہ کا پوتا مدار خان کہتا ہے کہ یہ قتل در اصل سرتور فقیر کے بھائی زرداد خان (زرداد پہلوان) نے کیا تھا اور اس نے اپنے بھائی نہیں بلکہ بھتیجے کو گھونسا مارا تھا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکا تھا۔ اسی وجہ سے رواج کے مطابق اسے ریگا (بونیر) سے چند سالوں کے لیے علاقہ بدر کیا گیا تھا۔ وہ تھوڑے عرصہ کے لیے اجمیر اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں رہا ا ور 1895ء میں بونیر واپس آیا۔ یہاں بہت جلد اس کی بزرگی اور تقویٰ کی بات مشہور ہوئی۔ وہ سیدھا سادھا آدمی تھا اور سیاسی چالوں سے ناواقف تھا۔ہندوستان کے علاقہ اجمیر اور دوسرے شہروں میں لمبا عرصہ گزارنے کے بعد جب وہ بونیر واپس آیا، تو اس نے وہاں لوگوں کو جہاد کرنے کا کہا لیکن اس مقصد کے حصول میں ناکام رہا۔ لنڈاکی (سوات) میں قیام پذیر ہونے سے پہلے یہ مختلف علاقوں میں گھوما پھرا تھا۔ ’’ھڈی ملا‘‘ کے ساتھ اس کا تعلق تھا۔

سنہ1887ء کو اس نے لنڈاکی میں ڈیرہ ڈال دیا اور اس کی کرامات کا شہرہ ہوگیا۔ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ اس کے روابط سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا ہندوستانی مجاہدین کے ساتھ تعلق بھی تھا اور افغانستا ن کے امیر کے ساتھ بھی۔ اور یہ امکان بھی ہے کہ ذکر شدہ ممالک کا مالی تعاون بھی اس کے ساتھ تھا۔ لنڈاکی میں اس کے ڈیرہ ڈالنے کا ذکر ایک لوک گیت میں ایسے ہوا ہے :

پہ لنڈاکی ورتہ دیرہ سرتور فقیر دے
ڈینگ فرنگے د زان پہ ویر دے
18جولائی سنہ 1897ء کو انگریزو ں تک یہ خبر پہنچی کہ ایک ناآشنا فقیر نے لنڈاکی میں ڈیرہ ڈالا ہوا ہے اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے کی کوشش میں ہے اور کہتا ہے کہ اس کی مدد کے لیے دوسری دنیا سے ایک ایسی فوج آئی ہوئی ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی۔ وہ (سرتور فقیر) خود بھی ایسا کرسکتا ہے کہ کسی کو نظر نہ آئے ۔ ساتھ وہ لوگوں کو یہ بھی کہتا رہتا ہے کہ انگریز کی گولی آپ لوگوں کو چھوے گی بھی نہیں اور پانی میں گرے گی۔ وہ یوں کہتا ہے کہ مجھے کسی نے بھیجا ہے لیکن یہ نہیں کہتا کہ کس نے بھیجا ہے ۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ چار آدمی اس کی مدد کے لئے آ رہے ہیں۔ مشہور ہے کہ چار فقیر، سرتور فقیر کے خواب میں آئے تھے اور اسے جہاد کی ترغیب دی تھی جس کی وجہ سے اس نے جہاد شروع کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذکورہ چار فقیروں کے ساتھ اس کی ملاقات سونیگرام (بونیر) کے مقبرہ میں ہوئی تھی۔ انھوں نے اسے (سرتور فقیر) کو پخیر راغلے (خوش آمدید) کہا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم دعاگو رہیں گے اگر تم ملاکنڈ کی ذمہ داری اپنے سر لے لو۔ اس کے بعد انھوں نے سرتور فقیر کے لیے دعا مانگی اور اس نے ذمہ داری لے لی اور جھاد شروع کیا۔

سرتور فقیر کے بارے میں یہ باتیں بھی مشہور ہیں کہ ملاکنڈ کی جنگ کے وقت اس نے لوگوں سے کہا کہ دشمن کی طرف ریت پھینکنا اور جب لوگوں نے ایسا کیا، تو ریت نے بھڑوں کی شکل اختیار کرلی جو دشمن کے پیچھے پڑگئیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاد کے وقت وہ اپنی لاٹھی دریا میں ڈالتے اور لوگوں سے کہتے کہ آنکھیں بند کرکے دریا کو عبور کریں، اور پھر جب وہ آنکھیں کھولتے ، تو دریا کے دوسرے کنارے پر خود کو کھڑا پاتے ۔ لیکن یہ بھی مشہور ہے کہ جب بھی وہ دریا پار کرتے ، تو کشتی کی مدد حاصل کرتے ۔
سرتور فقیر کے بارے میں یہ باتیں بھی مشہور ہیں کہ ملاکنڈ کی جنگ کے وقت اس نے لوگوں سے کہا کہ دشمن کی طرف ریت پھینکنا اور جب لوگوں نے ایسا کیا، تو ریت نے بھڑوں کی شکل اختیار کرلی جو دشمن کے پیچھے پڑگئیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاد کے وقت وہ اپنی لاٹھی دریا میں ڈالتے اور لوگوں سے کہتے کہ آنکھیں بند کرکے دریا کو عبور کریں، اور پھر جب وہ آنکھیں کھولتے ، تو دریا کے دوسرے کنارے پر خود کو کھڑا پاتے ۔ لیکن یہ بھی مشہور ہے کہ جب بھی وہ دریا پار کرتے ، تو کشتی کی مدد حاصل کرتے ۔

انگریزوں کو ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس کے ساتھ چاول کا ایک برتن تھا جس سے کئی لوگ بیک وقت سیر ہوتے تھے اور اس میں پھر بھی چاول باقی رہتا تھا۔ماہ جولائی کے وسط میں ملاکنڈ بازار سرتور فقیر کے تذکروں سے گرم تھا۔ یہ کہا جاتا تھا کہ اسلام کا سورج ایک بار پھر طلوع ہونے والا ہے اور نئے ماہ کا چاند نظر آتے ہی ایک انگریز بھی باقی نہیں رہے گا، سب واپس بھاگ چکے ہوں گے ۔ سرتور فقیر یہ بھی کہتا تھا کہ تمام فوت ہونے والے فقیر اس کے پاس آئے تھے اور وہ یہ کہہ گئے تھے کہ فرنگیوں کے توپ اور بندوقوں کے منھ بند ہوجائیں گے اور ان کی گولیاں پانی کی طرح بہہ جائیں گی۔ ساتھ یہ بھی کہتا تھا کہ میں دریائے سوات میں چند پتھر پھینکونگا جہاں ہر پتھر توپ کے گولے کا روپ دھار لے گا۔
سرتور فقیر کے بارے میں یہ باتیں بھی مشہور ہیں کہ ملاکنڈ کی جنگ کے وقت اس نے لوگوں سے کہا کہ دشمن کی طرف ریت پھینکنا اور جب لوگوں نے ایسا کیا، تو ریت نے بھڑوں کی شکل اختیار کرلی جو دشمن کے پیچھے پڑگئیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاد کے وقت وہ اپنی لاٹھی دریا میں ڈالتے اور لوگوں سے کہتے کہ آنکھیں بند کرکے دریا کو عبور کریں، اور پھر جب وہ آنکھیں کھولتے ، تو دریا کے دوسرے کنارے پر خود کو کھڑا پاتے ۔ لیکن یہ بھی مشہور ہے کہ جب بھی وہ دریا پار کرتے ، تو کشتی کی مدد حاصل کرتے ۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ ’’پیراں نمی پرند، مریداں می پرانند۔‘‘ مطلب یہ کہ پیر خود نہیں اُڑتے ، مرید اُڑاکرتے ہیں۔ ملاکنڈکا جہاد بہت مشہور ہے ۔ تبھی تو اولسی ادب میں اس کے کئی ایک حوالے پائے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ اس ٹپے میں کہا جاتا ہے کہ
پہ ملاکنڈ تورہ تیارہ شوہ
ھارونہ تورہ زلوہ چے رنڑا شینہ
سرتور فقیر نے لنڈاکی سے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ 26 تاریخ سنہ 1897ء کو وہ کچھ لڑکوں بالوں کے ساتھ لنڈاکی سے نیچے کی طرف روانہ ہوا۔ ان لڑکوں میں بقول اس کے ایک دہلی کا حکمران بھی تھا۔ لوگ اس کی دلیری پر انگشت بدنداں تھے اور اپنے مذہبی جذبے کی وجہ سے اس کی روحانی طاقت سے ڈر گئے ۔ وہ جتنا آگے جاتے ، لوگ اس کے ساتھ ملتے جاتے ۔ وہ ڈھیر سارے معجزات کا دعویٰ کیا کرتا تھا۔

تین دنوں میں سرتور فقیر نے بیس ہزار افراد جمع کرلئے۔ یہ لشکر ایک ہزار افراد سے ہوتا ہوا ملاکنڈ میں بارہ ہزار اور چکدرہ میں آٹھ ہزار افراد تک پہنچ گیا۔ الہ ڈنڈ اور دوسرے علاقوں کے لوگ سرتور فقیر کے ساتھ مل گئے اور شام کو ملاکنڈ پہنچ گئے ۔ اس لشکر نے رات نو بجے ملاکنڈ پر ہلہ بول دیا اور کوارٹر گارڈ کو قبضے میں لے لیا اور سارے اسلحہ پر قبضہ جما لیا۔ لیوی کے ایک جمعدار نے رات کے سوا نو بجے میجر ڈین کو یہ خبر دے دی کہ قبائل ملاکنڈ تک پہنچنے والے ہیں۔ فوجی بمشکل اپنی بندوقوں تک پہنچے تھے کہ حملہ ہوگیا۔
تین دنوں میں سرتور فقیر نے بیس ہزار افراد جمع کرلئے۔ یہ لشکر ایک ہزار افراد سے ہوتا ہوا ملاکنڈ میں بارہ ہزار اور چکدرہ میں آٹھ ہزار افراد تک پہنچ گیا۔ الہ ڈنڈ اور دوسرے علاقوں کے لوگ سرتور فقیر کے ساتھ مل گئے اور شام کو ملاکنڈ پہنچ گئے ۔ اس لشکر نے رات نو بجے ملاکنڈ پر ہلہ بول دیا اور کوارٹر گارڈ کو قبضے میں لے لیا اور سارے اسلحہ پر قبضہ جما لیا۔ لیوی کے ایک جمعدار نے رات کے سوا نو بجے میجر ڈین کو یہ خبر دے دی کہ قبائل ملاکنڈ تک پہنچنے والے ہیں۔ فوجی بمشکل اپنی بندوقوں تک پہنچے تھے کہ حملہ ہوگیا۔

تین دنوں میں سرتور فقیر نے بیس ہزار افراد جمع کرلئے۔ یہ لشکر ایک ہزار افراد سے ہوتا ہوا ملاکنڈ میں بارہ ہزار اور چکدرہ میں آٹھ ہزار افراد تک پہنچ گیا۔ الہ ڈنڈ اور دوسرے علاقوں کے لوگ سرتور فقیر کے ساتھ مل گئے اور شام کو ملاکنڈ پہنچ گئے ۔ اس لشکر نے رات نو بجے ملاکنڈ پر ہلہ بول دیا اور کوارٹر گارڈ کو قبضے میں لے لیا اور سارے اسلحہ پر قبضہ جما لیا۔ لیوی کے ایک جمعدار نے رات کے سوا نو بجے میجر ڈین کو یہ خبر دے دی کہ قبائل ملاکنڈ تک پہنچنے والے ہیں۔ فوجی بمشکل اپنی بندوقوں تک پہنچے تھے کہ حملہ ہوگیا۔ اس دن ملاکنڈ پر جو لڑائی شروع ہوئی تھی، وہ یکم اگست تک جاری رہی تھی۔ چھبیس تاریخ کو چکدرہ پر حملہ ہوا تھااور یہ لڑائی دوم اگست تک جاری رہی تھی۔ ستائیس جولائی کو لندن اور شملہ کی سرکار کو ان حملوں کی نوعیت کا اندازہ ہوا اور انھوں نے تیس جولائی 1898ء کو ملاکنڈ فیلڈ فورس کی منظوری دے دی۔ ملاکنڈ اور چکدرہ پر حملے ایک وقت اور ایک ہی دن ہوئے تھے ۔

روشن خان لکھتے ہیں کہ ملاکنڈ کی جنگ میں اُنیس قبائلی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور انگریز فوج کا ایک کرنل، ایک میجر، ایک لیفٹیننٹ اور پانچ سو اکیس سپاہی مرگئے تھے اور ایک ہزار تیئس سپاہی زخمی ہوئے تھے ۔ اس طرح چکدرہ میں پہلے حملہ میں انگریز فوج کے دو آفیسر، سولہ سپاہی اور چھبیس سوار مرگئے تھے ۔ دوسرے حملہ میں ایک انگریز صوبیدار، ایک میجر، ایک لیفٹیننٹ اور ایک سو دس پولیس سپاہی مرگئے تھے اور ایک سو بیس زخمی ہوگئے تھے ۔ امپیریل گزیٹر کے مطابق اس جنگ میں قبائیلیوں کے مُردوں کی تعداد تین ہزار سے کم نہ تھی اور برطانوی فوج کے تینتیس افراد مردہ اور ایک سو اسّی زخمی ہوئے تھے ۔ لیکن جیمز سپین کہتے ہیں کہ اس جنگ میں برطانوی فوج اور قبائیلی دونوں کے مردوں کی تعداد چند سو تھی۔ اس نے اس جنگ کو great tribal risingکہا ہے ، تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریزوں کو اس جنگ میں قبائیلیوں کے مقابلے میں زیادہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ملاکنڈ کی جنگ میں اُنیس قبائلی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور انگریز فوج کا ایک کرنل، ایک میجر، ایک لیفٹیننٹ اور پانچ سو اکیس سپاہی مرگئے تھے اور ایک ہزار تیئس سپاہی زخمی ہوئے تھے ۔ اس طرح چکدرہ میں پہلے حملہ میں انگریز فوج کے دو آفیسر، سولہ سپاہی اور چھبیس سوار مرگئے تھے ۔ دوسرے حملہ میں ایک انگریز صوبیدار، ایک میجر، ایک لیفٹیننٹ اور ایک سو دس پولیس سپاہی مرگئے تھے اور ایک سو بیس زخمی ہوگئے تھے ۔
ملاکنڈ کی جنگ میں اُنیس قبائلی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور انگریز فوج کا ایک کرنل، ایک میجر، ایک لیفٹیننٹ اور پانچ سو اکیس سپاہی مرگئے تھے اور ایک ہزار تیئس سپاہی زخمی ہوئے تھے ۔ اس طرح چکدرہ میں پہلے حملہ میں انگریز فوج کے دو آفیسر، سولہ سپاہی اور چھبیس سوار مرگئے تھے ۔ دوسرے حملہ میں ایک انگریز صوبیدار، ایک میجر، ایک لیفٹیننٹ اور ایک سو دس پولیس سپاہی مرگئے تھے اور ایک سو بیس زخمی ہوگئے تھے ۔

سرنزیب خان سواتی لکھتے ہیں کہ دوم اگست کو انگریزوں نے پیش قدمی کی، امان درہ پر قبضہ جمالیا اور یوں چکدرہ کا قلعہ بند کیا گیا۔ اس موقع پر پختونوں کا وہ قتل عام کیا گیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ سکھوں کو ہدایت دی گئی کہ بٹ خیلہ کے پختونوں سے اپنا بدلہ لیا جائے اور وہاں بھی قتل عام ہوا۔ اس جنگ میں سرتور فقیر کے ایک نائب سالار (ہندوستان کا ایک ملا) بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور سرتور فقیر زخمی ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی بھی کٹ گئی مگر وہ پھر بھی بڑی بے جگری سے لڑا۔
پچیس جولائی سنہ 1897ء تک پورے علاقے کے لوگوں کو سرتور فقیر ایک پاگل دکھائی دیتا تھا۔ کوئی اسے ’’ملا مستان‘‘ کہتااور کوئی سرتور فقیر لیکن جب اس نے شہرت حاصل کی، تو انگریزوں نے اس کے حوالے سے میانگلانوں سے مشورہ کیا۔ میانگلانوں نے پولیٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ سے کہا کہ اسے کوئی ترجیح نہ دیں اور ہم اس کے پیچھے نوکر بھیج کر اسے اٹھوا لیں گے ۔ بعد میں میانگلانوں نے موسیٰ خیل خانان کے تعاون سے سرتور فقیر کی راہ میں روڑے اٹکائے اور علاقہ بدر کرنے کی غرض سے اس کے پیچھے نوکر بھیج دئیے ۔ لیکن مذہبی توہمات (جذبات) کے ذریعے اس نے پوری وادیٔ سوات، حتی کہ دیر تک کافی طاقت پکڑی تھی۔ میانگلانوں نے تادم آخر سرتور فقیر کے خلاف ہر قسم کے راز انگریزوں تک پہنچائے ہیں۔ اس لئے کہ ان کا پولیٹیکل ایجنٹ کے ساتھ بڑا تعلق تھا۔ ایک بار تو اسے سیدو شریف میں اپنی خانقاہ میں مہمان کے طور پر بلایا بھی گیا تھا۔ میانگل عبدالودود نے سنہ 1908ء کو پولیٹیکل ایجنٹ تک یہ خبر پہنچائی کہ فقیر اپنے لشکر کے ساتھ عزیخیل تک پہنچ گیا ہے ۔ اور پی اے (پولیٹیکل ایجنٹ) کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
نوٹ:۔ "سرتور فقیر” محترم محمد علی دینا خیل کے ایک پشتو مقالے کا اردو ترجمہ ہے، راقم۔