ٹیکنالوجی میں پے در پے تبدیلیوں نے ویڈیو گیمز کے ایسے در کھول رکھے ہیں، جہاں اگر ایک طرف ڈھیر سارے فوائد نظر آ رہے ہیں، تو دوسری طرف ڈھیر سارے نقصانات نے بھی جنم لیا ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے نوجوان اور بچوں کے لیے ویڈیو گیمز کو انتہائی سستا اور آسان کر دیا ہے۔ ایسے ہی سیکڑں گیموں میں ایک "پَب جی” نامی گیم سے بھی ہر چھوٹا بڑا متاثر ہو رہا ہے۔
’’پَب جی‘‘ انگریزی زبان کا اختصار ہے۔ اسے یوں لکھا جاتا ہے "PUBG” اور یہ ان الفاظ کا اختصار ہے "Player Unknown’s Battle Grounds” اسے سال 2016ء میں "پَب جی کارپ” نے "بلو ہول” نامی کمپنی کے اشتراک سے لانچ کیا، لیکن 23 مارچ 2017ء میں پَب جی کارپ نے مزید آپشنز شامل کرتے ہوئے اسے باقاعدہ اَپ ڈیٹ کیا۔ تب سے اس گیم کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ مئی 2018ء کی ایک ریسرچ کے مطابق 50 ملین لوگ "پَب جی” گیم کھیلتے ریکارڈ کیے گئے، جن میں 2 ملین (بیس لاکھ) صرف پاکستانی ہیں۔
قارئین، بچے کیا، نوجوان طبقہ بھی دن رات بیش تر وقت اسی گیم کھیلنے میں صرف کرتا رہتا ہے۔ پَب جی کھیلنے والوں کی صحت پر بھی بُرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ گیم بنانے والی کمپنی "فن لینڈ” کی فرم "سوپر سیل” اور ساؤتھ کوریا کی "بلو ہول” کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ مذکورہ ویڈیو گیم میں موجود "اینی میشن” (Animation) کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں کثرت سے گیم کھیلنے والوں میں مرگی کا عارضہ پیدا کرسکتی ہے۔ یہ بھی خبردار کیا گیا ہے کہ یہ اور اِس جیسے دیگر ویڈیو گیمز کثرت سے کھیلنے والوں کے ہاتھوں میں رعشہ (ایک اعصابی بیماری جس سے خود بخود ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں) پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ انتباہ بھی دیا گیا ہے کہ گیمز میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ہڈیوں اور عضلات کی تکلیف لاحق ہوجاتی ہے۔
قارئین، علاوہ ازیں ویڈیو گیمز کھیلتے ہوئے آنکھوں کی حرکت تیز ہو جانے کی وجہ سے آنکھوں پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے۔ "الیکٹرومیگنٹیک ویوز” (مقناطیسی لہریں) موبائیل اسکرین سے نکلتی رہتی ہیں، جس کی وجہ سے آنکھیں سرخ اور خشک ہوجاتی ہیں۔ حتیٰ کہ یہ گیم کھیلنے والوں میں خود اعتمادی کی کمی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی عوارض بھی جنم لیتے ہیں۔
"پَب جی” ایک ایسا گیم ہے، جس میں گروپ کی شکل میں دوسروں کو قتل کرکے ان کی املاک کو نذرَ آتش کیا جاتا ہے۔ ناحق انہیں زد و کوب کرکے لطف اٹھایا جاتا ہے۔ مکمل گیم اختتام تک کھیلنے والوں کو ایک فرضی "چِکن ڈِنر” کی شکل میں انعام ملتا ہے۔ بچے اور خاص طور پر نوجوان نسل اس قسم کے ویڈیو گیمز کثرت سے کھیل کر گویا جرائم کے نت نئے طریقے اور ترکیبیں بھی سیکھ لیتے ہیں۔
اس قسم کے گیمز ان کے ذہنوں میں تشدد، مار دھاڑ اور لڑنے جھگڑنے کے ایسے ہنر پیدا کر دیتے ہیں جن سے وہ ویڈیو گیمز کھیلنے سے پہلے بے خبر ہوتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک ایسا گیم ہے جس سے واردات، خوں ریزی اور جرائم کو پھیلایا جا رہا ہے۔ گیم کھیلنے والوں کو ایک ایک ہتھیار کا نام اَزبر ہوجاتا ہے۔ ساتھ ساتھ اِس گیم میں منشیات کا بے دریغ استعمال، تشدد، مار دھاڑ، چھپ چھپا کر قتل کرنا، گروہوں کے درمیان لڑائی، نازیبا اور عامیانہ الفاظ کا استعمال ایک عام سی بات ہے۔ عام فرد کے لیے وہ تصورات اور الفاظ جن کو پہلے کبھی سوچنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا، اب ان گیمز کے ذریعے ایک عام سی بات دکھائی دیتے ہیں۔ اور معاشرہ اس کے کثیر استعمال کے باعث انہیں قبول کرکے اپنے اندر ضم بھی کر رہا ہے۔ تشدد، مار دھاڑ اور جنگ کے مناظر عام افراد خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت پر کیا اثرات مرتب کریں گے؟ اس سے موبائل سافٹ وئیر اور گیم تیار کرنے والی کمپنیوں کو کوئی سر و کار نہیں، لیکن یہ سوال معاشرے کے لیے بے حد اہم ہے کہ پُرتشدد اور اخلاق باختہ ویڈیو گیمز کے پھیلاؤ کے بعد اس قوم کا اخلاقی طور پر مستقبل کیا ہوگا؟
قارئین، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان چیلنجز اور مسائل سے نمٹنے کے لیے اور اپنے بچوں کو ان چیزوں کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، تا کہ ہمارا مستقبل محفوظ طریقے سے پروان چڑھ سکے۔ ورنہ اس قبیل کے موبائل گیمز کے سائے میں پروان چڑھنے والی نسل کے لیے ادب، اخلاقیات، انکساری، تحمل، صبر، حیا اور دردمندی جیسے الفاظ مستقبل قریب میں عجوبہ ہوں گے۔

……………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔