کرپشن اور بدعنوانی ایک ایسا تجربہ ہے جس سے پاکستان کا ہر باشندہ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی صورت بہرہ ور ہوتا رہتا ہے۔ صرف اسی کی وجہ سے ہی ہماری معاشی کارکردگی انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ لوگ دعائیں مانگتے ہیں کہ خدایا کسی سرکاری محکمے، خاص کر پولیس اور عدالت میں کوئی کام نہ آن پڑے۔ اس کا اتنا گہرا اثر ہے کہ عوام کچھ سرپھروں اور بدقماش لوگوں سے اسی لیے تعلقات بنائے رکھتے ہیں، کہ اگر کبھی ان محکموں میں کوئی کام آن پڑے، تو ان صاحبان سے مدد لی جاسکے۔ ایک بدمعاش قسم کے نشئی تو بلدیاتی انتخابات میں یہ کہتے ہوئے لوگوں سے ووٹ مانگتے پھرتے تھے، کہ مجھے قتل اور اقدامِ قتل کے مقدموں میں معاونت کے لیے استعمال کیا کرو۔ یہ چھوٹے موٹے جرگے لے کر میرے پاس مت آیا کرو، اور وہی صاحب پھر جیت بھی گئے۔ یہ ایک ایسا کثیر الجہت انسانی مسئلہ بن چکا ہے کہ لوگ اس کو بطور منجن بیچتے ہیں اور اس کے اثرات کے ڈراوے کی بنیاد پر ہی ہماری ملک کی جمہوری منتخب حکومتوں کا تختہ بھی الٹایا جاچکاہے۔ موجودہ حکومت بھی یہی منجن بیچ کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچی ہے، لیکن کسی کو اس جن کو بوتل میں بند کرنے کا طریقہ نہ آیا۔ اس تناظر میں ’’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘‘ کی کرپشن سے متعلق امسال رپورٹ دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 49 فی صدمعاملات رشوت کی بنیاد پر سرانجام پاتے ہیں۔اچھنبے کا عنصر مگر اس رپورٹ میں یہ تھا کہ اس حوالے سے بھارت کی شرح 69 فی صد ہے۔ یعنی کہ پاکستان بہ نسبت انڈیا کے اچھی پوزیشن پر ہے۔ حالاں کہ تاریخی طور پر پاکستان کی رینکنگ اس میدان میں فقید المثال رہی ہے۔
جب اس معاملے کی تھوڑی جانچ کی، تو بہت حوصلہ افزا معلومات بہم پہنچی۔ پچھلے دورِ حکومت میں حکومتِ پنجاب نے موٹر رجسٹریشن ، لینڈ ریوینیو ( جسے عرف عام میں پٹوار کہتے ہیں)، پولیس کا نظام، محکمۂ تعلیم اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے حوالے سے چند جدید ٹیکنالوجیکل ایپلیکیشنز اور اس کے بر محل نظام متعارف کروایا تھا۔ حکومت خیبر پختونخوا نے بھی محکمۂ ورکس میں اس قسم کی کوشش کا اجرا کیا تھا۔ یہ اقدام اتنا بھاری پڑا کہ کرپشن اور بدعنوانی کے بے تاج بادشاہ بھی بے دست و پا ہوئے۔ اور کلرک اور بیوروکریسی کے کارپرداز کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہے۔ انہیں سوجھ نہیں رہا کہ کس طرح اپنے لائف سٹائل کو برقرار رکھا جاسکے۔
ہمارے یہاں تو آج بھی خزانہ، واپڈا، محکمۂ تعلیم، محکمۂ انصاف اور محکمۂ پولیس کے افسران اور کلرک طبقہ اوپر کی آمدنی کی طرف ہی منھ کھولے ہوئے ہوتا ہے۔
اپنی ملکیتی زمین کا فرد یا نقشہ بر محل نکالنے کے لیے آج بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، جب کہ اس کے مقابلے میں پنجاب میں زمین کے متعلق دستاویزات آن لائن ہی موجود رہتی ہیں اور یوں ملک کی آدھی آبادی اس حوالے سے بد عنوانی اور رشوت ستانی سے بچی ہوئی ہے۔ جدید دنیا میں ٹیکنالوجی جس طرح باقی میدانوں میں اپنی اہمیت منواچکی ہے، وہاں اچھی طرزِ حکمرانی کے رائج کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس حوالے سے سب سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی اِفادیت عوامی اور غیر طبقاتی قسم کی ہے۔ جس سے معاشرے کے تمام طبقے تقریباً یکساں مستفید ہوسکتے ہیں۔ البتہ شرط اس میں یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر مفید قبولیت اور قابلیت موجود ہو، کہ جس کی بنیاد پر اسے اپنے کام لایا جاسکے۔ دنیا کے مختلف تجربات سے اس حوالے سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ریلوے کی ’’ای ٹکٹنگ‘‘ سے لے کر ’’پوسٹل سروسز‘‘ کی ’’ٹریکنگ‘‘ تک، درخواستوں کی مؤثر محکمانہ ترسیل و ترتیب سے لے کر تعلیمی نظام میں مؤثر نگرانی اور امتحانی طریقۂ کار تک بہت سے ایسے میدانِ عمل ہیں جو کہ انتہائی کم وسائل میں بہت اچھی کارکردگی کی طرف گامزن کیے جاسکتے ہیں۔
پرائیویٹ سیکٹر بہت تیزی سے ٹیکنالوجیکل ترقی کو اپنانے کی طرف گامزن ہے جب کہ پبلک سیکٹر میں اس حوالے سے روایتی لیت و لعل اور ٹرخاؤ پالیسی کا رویہ ہے۔ عوامی وسائل کا معتد بہ حصہ انہی اللوں تللوں اور بدعنوانیوں کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے جوکہ ہمارے جیسے کم وسائل کے ممالک میں ناقابلِ برداشت اور مہلک ثابت ہو رہا ہے۔
ٹیکنالوجی کی مدد سے اس صورتحال میں بہت تیزی کے ساتھ بہتری لائی جاسکتی ہے۔ چین اور کوریا جیسے ممالک نے بہت اچھے انداز سے اپنے نظام ہائے کار میں ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسی مؤثر نگرانی کا طریقۂ کار متعارف کروایا ہے کہ ان کے سسٹم میں سے رشوت ستانی اور بدعنوانی کا کافی حد تک خاتمہ ہوچکا ہے۔ ہمیں بھی ایمرجنسی بنیادوں پر اپنے گورننس میں ٹیکنالوجی کے ذریعے کارکردگی بہتر بنانے کے اقدامات اٹھانا چاہئیں۔ ورنہ اس گرتی ہوئی ریاستی ڈھانچے کو سہارا دینا اور مشکل ہوجائے گا۔
………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔