پشتو موسیقی کے ساتھ لگاؤ رکھنے والوں کے لیے گلنار بیگم کی جادوئی آواز کے سحر سے نکلنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ انہیں گلوکاری کے حوالہ سے فطری استعداد حاصل تھی۔ رہی سہی کسر اُس دور کے موسیقاروں نے کمال کی دھنیں ترتیب دے کر پورا کی۔ نتیجتاً گلنار بیگم امر ہوگئیں۔ بجا طور پر کہاجاسکتا ہے کہ اُن کی جادوئی آواز کی بنا پر عوام و خواص پشتو فلموں کے ساتھ ساتھ ریڈیو کے ذریعے موسیقی کے پروگرام سننے کو ترجیح دینے لگے۔ انہوں نے بیشتر گیت رفیق شنواری، فضل ربی پردیسی اور ایس ٹی سنی کی ترتیب شدہ موسیقی کے ساتھ گائے ہیں۔
طبلہ کے استاد اور موسیقار مرحوم فضل ربی پردیسی نے گلنار بیگم کے فن کے حوالہ سے مشال ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ دیگر بے شمار پشتونوں کی طرح وہ بھی گلنار بیگم کے مداح تھے۔ ’’گلنار بیگم کا تعلق جس بھی خاندان سے تھا، مگر اسے قدرت نے ایسی سحر انگیزآوراز دی تھی کہ جسے سنتے ہی موسیقی سے لگاؤ رکھنے والا ہر خاص و عام اُن کا گرویدہ ہوجاتا۔ میں نے ان کے ساتھ کئی فلمی گیتوں اور ریڈیو کے لیے تیار کیے جانے والے پروگراموں میں طبلہ بجایا ہے۔ میں اُن کی خاطر چاہے کتنی ہی سادہ دُھن ترتیب دیتا وہ پورے ذوق و شوق سے اُس کے ساتھ گایا کرتیں۔‘‘
بنوں کے ایک مشہور شاعر اور ادیب غازی سیالؔ جسے نہ صرف گلنار بیگم کو قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل ہو اہے بلکہ اُن کے لیے کئی فلمی گیت بھی تخلیق کرچکے ہیں، اُن کے حوالے سے کہتے ہیں: ’’گلناربیگم کا اپنا نام شیرین اور والد کا گل محمد تھا۔ ان کا گھرانا ’’کونڑ‘‘ (افغانستان) کے علاقہ سے پشاور ہجرت کر گیا جہاں شہباز گڑھی میں رہائش اختیار کی۔ شناختی کارڈ میں ان کی تاریخِ پیدائش 1942 ء درج ہے۔ اس علاقہ کی ایک مشہور گلوکارہ گوہر شاد نے گلنار بیگم کا نکاح اپنے بھائی سے کرایا تھا۔ دریں اثنا ان کی سریلی آواز کا ذکر اُڑتی خبر کی طرح ریڈیو پاکستان پشاور سنٹر کے پروڈیوسر ارشد علی دہقان تک پہنچا۔ بعد میں وہ گلنار بیگم کے پیچھے بنوں جا پہنچے۔ ارشد دہقان مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ گلنار بیگم منھ چھپائے ہمارے سامنے آئیں اور ارشد دہقان کے مائک میں یہ گیت گایا:
’’دَ کڑاکڑ مزل دَ برمہ اوویستمہ‘‘
دہقان صاحب کو گلنار بیگم کی سحر انگیز آواز پسند آئی اور بعد میں انہیں پشاور سنٹر بلایا۔‘‘
غازی سیالؔ آگے کہتے ہیں کہ گلنار بیگم ان کی منھ بولی بہن تھیں۔ اپنے کئی تخلیق شدہ گیت انہیں دیے۔ انھوں نے سا دگی اور پارسائی کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ’’مَیں اُن کے لیے گیت لکھا کرتا تھا، لیکن اُن کا تلفظ ٹھیک نہیں ہوتا تھا۔ میں ایک بھائی کے ناتے اُن کے حجرے جایا کرتا اور الفاظ کی ٹھیک ادائیگی کی خاطر ان سے مشق کرایا کرتا۔ مَیں نے اُن کے لیے گیت لکھے اور انہوں نے گا کر اَمر کر دیے۔ وہ بااخلاق، باحیا اور باوقار خاتون تھیں۔ چھوٹی بات پر خفا ہوتیں، مگر چھوٹی سی معذرت سے اُن کی خفگی دور بھی ہوجاتی۔ وہ سادگی کے ساتھ ساتھ فیاضی کا پیکر تھیں۔ پنج گانہ نماز کا اہتمام کرتیں۔ پردہ کا تو بطورِ خاص خیال رکھتیں، بازار سے گزر ہوتا، تو کسی کو گمان تک نہ گزرتا کہ گلنار بیگم جا رہی ہیں۔ حتیٰ کہ ریڈیو سٹوڈیومیں بھی گیت ریکارڈ کراتے سمے پردہ کا خاص اہتمام کرتیں۔ انہوں نے عوامی یا میدانی محفلوں میں کبھی آواز کا جادو نہیں جگایا۔‘‘
غازی سیالؔ جنہوں نے گلنار بیگم کے ساتھ گلوکاری کے میدان میں تعاون کیا تھا، چاہتے تھے کہ ان کی اولاد بھی گلوکاری میں نام کمائے: ’’گلنار بیگم کی اولاد میں تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں، جن میں کوئی ایک بھی گلوکار نہیں بنا۔ حالاں کہ بیٹیوں میں ایک کی آواز ماں سے زیادہ سریلی تھی۔ اس نے ایک کیسٹ اپنی آواز میں ریکارڈ بھی کرائی تھی۔ مَیں نے ان سے کہا کہ بیٹی کو گلوکاری کی اجازت دے دیں، مگر انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا، کیا یہ کم ہے کہ مَیں ایک ناچ گانے والی ’’ڈمہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئیں؟ اپنی بیٹی کو ہر گز یہ نام نہیں دینا چاہتی۔‘‘
غازی سیالؔ، گلنار بیگم کی موت کا ذکر افسوس کے ساتھ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کے اداروں اور سرکردہ پشتونوں میں سے کسی نے بھی گلنار بیگم کی قدر نہیں کی۔ ’’انہوں نے جیتے جی وصیت کی تھی کہ مسجد کے ساتھ والے قبرستان میں مجھے دفنایا جائے جب یکم اکتوبر سنہ 1995ء کو وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں، تو میں نے ان کی وصیت کے مطابق قبر کی جگہ منتخب کی، مگر ان کے شریکِ حیات نے مخالفت کی اور کہا کہ قبر کی جگہ گھر سے دور ہے۔ میں نے گلنار بیگم کی وصیت کا ذکر کیا، مگر ان کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔ دوسری طرف حکومتی ادارے ہیں جن کا اگر ذکرہی نہ کیا جائے، توبہتر ہوگا۔‘‘
گلنار بیگم کے چند مشہور گانے یہ ہیں:
نہ درزی پہ لاس زلفے زما، رسوا بہ شی پریگدہ لیونیہ د دنیا او د خندا بہ شی
اے یارہ چی رازی، دلدارہ چی رازی گلونہ غوڑووم درتہ پہ لارہ چی رازی
سوک د حسن خریدار دی، دلتہ زما سوک د زلفو طلبگار دی، دلتہ زما
بیا می پروا نشتہ کہ پہ دار شم تا نہ زہ قربان شم، تا نہ زار شم
(مشال ریڈیو کی شائع کردہ ہارون باچا کی پشتوتصنیف ’’نہ ھیریگی نہ بہ ھیر شی‘‘سے ’’گلنار بیگم‘‘ کا ترجمہ)
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔