حکمرانِ سوات کے لیے چیلنج اور رکاوٹیں

سوات کا حکمران مقرر ہونے پر عبدالجبار شاہ کے مقابلہ میں عبدالودود کی پوزیشن مقابلتاً بہتر تھی، چوں کہ اُس کا تعلق سوات سے ہی تھا اور اُس کا اپنا ڈلہ (دھڑا) موجود تھا۔ اُسے 1877ء میں وفات ہوجانے والے اخوند آف سوات کے (جو اُس کا دادا تھا) مریدوں کی حمایت حاصل تھی۔ علاوہ ازیں ایک تو اُس نے عبدالجبار شاہ کو در پیش مشکلات اور اس کی راہ میں حائل رکاؤٹوں سے خاصا کچھ سیکھ لیا تھا، دوسرا یہ کہ اُسے حکومت اور انتظامیہ کا ایک بنیادی قسم کا ڈھانچہ سابقہ حکومت سے ورثہ میں مل گیا تھا، جس پر ایک عمارت تعمیر کی جاسکتی تھی۔
تاہم یہ کام آسان ہر گز نہیں تھا۔ اُسے اب بھی نوابِ دیر کی طاقت سے نمٹنا تھا۔ اسی طرح سنڈاکئی بابا کو بھی جو شہرت اور اثر و رسوخ حاصل تھا، وہ کسی بھی وقت مستقبل میں خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ پھر اُس کے اپنے بھائی میاں گل شیرین جان سے بھی معاملات صاف نہیں ہوئے تھے۔ اُسے بھی دادا کے کئی مریدوں کی حمایت حاصل تھی۔ وہ بھی اقتدار کا خواہش مند تھا اور اس مقصد کے لیے پہلے بھی اُس سے لڑچکا تھا۔ مزید برآں معزول بادشاہ عبدالجبارشاہ سب کچھ معاف کرکے آرام سے ایک جانب بیٹھ جانے کے لیے یقینا تیار نہیں تھا۔ اس پر مستزاد وہ روایتی ہٹ دھرم طاقت ور قیادت تھی جو آسانی سے اپنا سب اختیار و اقتدار اور حیثیت ایک ایسے شخص کو سونپنے کے لیے تیار نہیں تھی، جس کی وہ عزت تو کرتے تھے لیکن اطاعت کسرِ شان سمجھتے تھے۔ ایک ایسی منظم بااختیار حکومت کا قیام جو امن و امان قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ریاست کو ترقی کی راہ پر بھی گامزن کرسکے، اب بھی دیوانے کا خواب لگتا تھا۔ انتظامی ڈھانچہ بالکل ابتدائی نوعیت کا تھا۔ افواج غیر منظم اور ناکافی تھیں۔ پیسہ کی قلت تھی۔ حالاں کہ برطانوی حکومت سے وفاداری کا رشتہ آغاز ہی سے قائم تھا، لیکن اس پر حکمران کی حیثیت سے اعتماد پیدا ہونے کے لیے ضروری تھا کہ سوات کے سیاسی حالات اور عالمی منظر کی بھٹی سے اُسے صحیح سلامت کندن ہوکے نکلنا تھا۔ جنگِ عظیم اوّل جاری تھی اور برطانیہ مخالف عناصر کی سرگرمیاں ہندوستان کے باہر اور اندر اور خصوصاً جس علاقہ میں سوات واقع ہے، وہاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ مزید برآں "روس میں 1917ء کے انقلاب کے بعد آنے والے حکمرانوں کو زار سے ملنے والے ترکہ پر اب نظریہ کی طاقت کا پانی بھی چڑھ گیا۔” اور سوات کے محلِ وقوع کی تزویراتی اہمیت روس کی سرحد سے قریب ہونے اور "فوجی ہلال” کا حصہ ہونے سے مزید بڑھ گئی۔ جس نے ترکی، ایران اور افغان پٹی کی شکل میں سوویت یونین کے ایک طرف کو گھیرا ہوا تھا۔
اپنے اقتدار اور پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے اُس کو ان تمام مسائل سے نمٹنا تھا لیکن حقیقت میں اُسی کے عہدِ حکومت میں ریاستِ سوات کو صحیح معنوں میں استحکام اور توسیع نصیب ہوئی۔ ایک برطانوی سرکاری رپورٹ کے مطابق: ’’میاں گل نے انتہائی زوردار طریقے سے اپنی سلطنت کو مستحکم کرنے کا آغاز کر دیا۔ سب سے پہلے اُس نے 3000 کی نفری پر مشتمل خاصی اچھی طرح سے مسلح باقاعدہ فوج بنائی۔ اُس نے گھوڑے خریدنے پر کافی رقم لگائی۔ اس بات کی حوصلہ افزائی کی کہ سوات اسلحہ کی درآمد تیز رفتاری سے ہوسکے۔ اسلحہ اور گولہ بارود بنانے کی فیکٹریاں لگائیں اور لنڈاکے اور گوڑہ میں دریا کے دونوں جانب چنگی وصول کرنے کے لیے چوکیاں بنائیں۔” (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 83 تا 84 سے انتخاب)