میرے لیے ضیاء الدین یوسف زئی کا تعارف ذرا ذرا مختلف ہے اُن لوگوں سے جنھوں نے افسانوی، پُراَسرار، متنازع یا غیر فطری طریقے سے کیا، سنا یا سنایا ہے۔
ضیاء الدین یوسف زئی جہانزیب کالج میں مجھ سے سینئر تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ ’’پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ سے تمام تر ہم دردیوں کے باوجود ایک غیر تحریری نسل پرستانہ و قوم پرستانہ غالب جذبات پر میرے شدید تحفظات تھے۔
پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کا خاصا رہا ہے کہ بہترین جذباتی تقریر اور بہترین شاعری کے چناو کی قدر ہر راہ نما میں مشترک رہی، مگر ساتھ ہی مجالس و مکالمے میں دلیل کی جگہ زور اور پُرتشدد الفاظ کی ادائی، تقریر اور شاعری کو محض طاقت کا اظہار بنا دیتی تھی۔
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
ضیاء الدین یوسف زئی نے طلبہ تنظیم کی سربراہی سنبھالی، تو ایک فرق نے مجھے فوراً متوجہ کیا ۔ میری نظر میں وہ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں فٹ نہیں تھے۔ وہ دلیل سے بات کرتے تھے اور عدم تشدد کے قائل تھے۔ یہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے آئین کے عین مطابق اور اس کے عمل کے برعکس تھا۔
دوسری بات، ضیاء الدین کی گفت گو میں لکنت تھی، ہکلاہٹ تھی مگر جب شعر ادا کرتے تھے، تو اس روانی سے کہ ’’پِن ڈراپ سائلنس‘‘ ہوتی۔
پہلی دفعہ مَیں نے دیکھا کہ غیر سیاسی اساتذۂ کرام دروازوں اور برآمدوں میں کھڑے ہوکے مدلل مقرر اور برجستہ اشعار سنانے والے کو سنتے۔
میری عقیدت ضیاء الدین یوسف زئی کے ساتھ اُن کی شخصیت کی پُراَسراریت کی وجہ سے تھی، جس کو مَیں سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ وہ انتہائی انکسار اور تہذیب سے رہتے، جس کو مَیں اُن کی عظمت یا احساسِ کم تری میں کوئی ایک سمجھنے سے قاصر رہا۔ اساتذہ میں غیر معمولی مقبولیت اور پذیرائی رکھتے تھے، جو اُس وقت کسی اور طالب علم راہ نما کے لیے مَیں نے نہیں دیکھی تھی۔
ضیاء الدین یوسف زئی ترقی پسند اور لبرل تھے۔ تھیوکریسی کے مخالف تھے، مگر روحانیت پسند سا بھی تھے۔ وہ مذہب پر بات نہیں کرتے تھے۔ اس حوالے سے تنقید بھی نہیں کرتے تھے۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس حوالے سے ہمیشہ غیر جانب دار رہتے۔
چوں کہ بائیں بازو کی سیاست زندہ اور سر گرم تھی…… اور ریاست کی طرف سے مذہبی استعمال اور اس استعمال میں استحصال غالب تھا، اس لیے بائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد کی استعمار کے ساتھ مذہبی تنقید گویا اُس وقت فیشن تھی۔
ضیاء الدین یوسف زئی ایک روایت پسند مذہبی شخص اور حقِ تنقید کے حامی دوہری شخصیت کے حامل فرد نظر آتے تھے۔ وہ مذہبی انتہا پسندی اور لا دینی انتہا پسندی کے دور میں اعتدال پر تھے، جو اُن کی جیسی شخصیت سے اُمید نہیں کی جا رہی تھی۔ خود شاعر تھے اور لطیف احساسات کے مالک تھے۔ انگریزی اور پشتو ادب پر بڑی حد تک عبور رکھتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک بہت اچھے سامع تھے، جس نے مجھے بہت متاثر کیا۔
ضیاء الدین یوسف زئی ہمارے محلے میں بھی آکر رہنے لگے تھے اور وہاں کسی عام محلے دار کی طرح اُسی لہجے میں گفت گو کرتے۔ یوں وہ نوجوانوں اور عام محلے داروں میں مقبول ہوئے۔
مَیں نے ایک چھٹی والے دن ایک آدمی کو دیکھا، جس کے ہاتھ میں چھوٹی سی سیڑھی اور ایک بورڈ تھا۔ مَیں اُسے دور سے دیکھ رہا تھا۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ تو ضیاء الدین یوسف زئی تھے۔ میرے ساتھ جو لڑکے تھے، وہ اُن کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ جتنا جانتے تھے وہ یہ تھا کہ ’’ایک شانگلے والا نیا کرایے دار اور اچھا لڑکا ہے۔‘‘ اس سے زیادہ شناسائی نہیں رکھتے تھے۔ ہم خوڑ پار کرکے اُن کے پاس پہنچے۔ وہ کچھ شرمائے کچھ خوش ہوئے۔ مَیں نے پوچھا کیا کر رہے ہیں آپ؟ بورڈ دِکھاتے ہوئے کہنے لگے: ’’ساجد! ایک چھوٹی سی کوشش ہے، خوشحال پبلک سکول لنڈیکس!‘‘
مَیں نے پوچھا کہ کیا آپ واقعی انگلش میڈیم سکول کھولنے میں سنجیدہ ہیں، جس کا کوئی سٹینڈرڈ بھی ہوگا؟
اُنھوں نے اعتماد سے جواب دیا: ’’یقینا……!‘‘
مَیں نے کہا، ’’نام کا انتخاب قطعی غلط ہے۔‘‘
اُنھوں نے بورڈ کو حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’کیوں……؟‘‘
مَیں نے جواباً کہا: ’’اگر انگلش میڈیم سکول کھولنے کا اردہ ہے، تو خوشحال خان، رحمان بابا ٹائپ نام رکھنے کی جگہ شیکسپیئر ، سینٹ، لارنس ، کوئین، جان یا مارٹن ٹائپ نام رکھیں۔‘‘ مَیں اُس وقت یہ مشورہ دیتے ہوئے سنجیدہ تھا۔
وہ جواباً کھل کر ہنسے اور گلے لگے، جس کا مطلب تھا کہ وہ قطعی طور پر متفق نہیں۔ وہ بورڈ ہم نے مل کر نصب کیا۔ یہ ایک طرح سے تشہری مہم تھی سکول کی، جس کو ایک لمبے عرصے تک وہاں سے گزرتے ہوئے ہم دردی سے دیکھتا۔
انعام ہمارا دوست تھا اور اُس نے نشاط چوک میں ایک کتابوں کی دُکان کھولی تھی، جس میں روایتی کتابوں کے علاوہ ترقی پسند ادب پر کتابیں اور رسائل بھی موجود ہوتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ کئی لوگوں کے لیے ایک جائے عافیت اور پاک ٹی ہاؤسم لاہور جیسی اہمیت حاصل کرگیا۔ ضیاء الدین یوسف زئی بھی گاہے گاہے وہاں آتے۔ جہاں مَیں، عثمان اولس یار اور دیگر نظام سے مایوس جوان موجود ہوتے۔ جذباتیت سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ اُن دنوں 14 اگست کی کاروباری سطح پر منانے کی کوئی روایت نہیں تھی۔ میری یاد میں پنجاب بیکری والے اپنی بیکری سجا کر کچھ اظہار کرتے، ورنہ سکولوں ہی میں 14 اگست کے نغمے سن کر آدھی چھٹی کا سا ماحول ہوتا۔
ایک 14 اگست کو بغیر کسی پیشگی مشورے کے ہم نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ لیں۔ ضیاء الدین آئے، تو ان کے بازو پر بھی باندھ دی۔ ہم خود غیر اہم تھے۔ ہمارے احتجاج کی اہمیت ہمارے علاوہ کسی نے محسوس نہیں کی اور ہم خود نہیں جانتے تھے کہ ہمارا کیا مقصد تھا؟ ہاں، نظام پر عدم اعتماد اس کی ایک وجہ ضرور تھی۔ ضیاء الدین یوسف زئی کے خلاف پچھلے سالوں میں 14 اگست کو یومِ سیاہ کے طور پر منانے کا الزام لگا، جسے پڑھا تو بے اختیار ہنس دیا۔
ضیاء الدین یوسف زئی کے نظریات سے زیادہ اُن کی شرافت اور دوستی کا احترام سیاہ پٹی کو بازو پر بندھنے کی وجہ بنا، جو ایک عرصہ گزرنے کے بعد اب بھی اُن کے لیے طعنہ ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
حضرتِ ضیاء الدین یوسف زئی صاحب کی ٹویٹ 
ضیا صاحب، کاش آپ پروفیسر فریڈرک بنتے 
ہم بت تراشنا کب چھوڑیں گے؟ 
اب کی بار ملالہ کو لعن طعن کرنے کی تُک نہیں بنتی  
حامد میر غدار ہے، نہ ملالہ کافر  
ملالہ خود مسئلہ ہے یا اُس کا بیان………!
انعام اور ہم کئی پشتوں سے پڑوسی تھے۔ عثمان اولس یار رشتہ دار، کلاس فیلو، دوست اور ہم نظریہ تھا۔ باقی دو تین دوست بھی ایسے ہی تھے۔ اس طرح عبداللہ یوسف زئی اور واجد علی خان کا بھی گزر ہوتا اور حوصلہ افزائی کرتے۔
ضیاء الدین یوسف زئی نے اَدبی زندگی کا باقاعدہ آغاز کیا، تو فضل محمود روخان اور فضل ربی راہی صاحب کی قربت مل گئی، جس کی مجھے توقع بھی تھی۔ اُن کے اندر اہلیت تھی۔ اس لیے مذکورہ محفل تک پہنچتے ۔
ٍ اس کے بعد آہستہ آہستہ ضیاء الدین ایک بااعتماد ماہرِ تعلیم کی صورت میں اُبھرنا شروع ہوئے۔ اَدبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہے۔ اُن کی خواہش تھی کہ تعلیم سائنسی بنیادوں پر آسان، سستی اور پُرکشش ہو۔ نیز کم زور اور بے آسرا لوگوں کی مالی مدد کا کوئی مستقل کوئی سلسلہ بھی چل پڑے۔اسی دھن میں مگن رہے۔ مَیں بھی عملی زندگی میں آکر سوات چھوڑ چکا تھا…… مگر ضیاء الدین کے ساتھ مستقل طور پر رابطے میں تھا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں:
٭ پہلی وجہ:۔ پچھلا تعلق۔
٭ دوسری وجہ:۔ میرے بہنوئی احمد شاہ کے ساتھ اُن کی دوستی۔
٭ تیسری وجہ:۔ میرے والد صاحب کے ساتھ اُن کا تعارف اور اچھے الفاظ میں ذکر سمیت دیگر متعدد وجوہات……!
2008ء یا 09ء میں ضیاء الدین کا ایک میسج آیا کہ وہ بیرونی ملک کسی اَدبی سلسلے میں جا رہے ہیں۔مَیں نے مذکورہ میسج ویسے ہی فیس بُک پر لگا دیا۔ میرے ایک فیس بُکی دوست اور سوات کے ایک رہایشی نے تبصرہ لکھا کہ ’’مَیں بہت خوش ہوں گا، اگر ضیاء الدین یوسف زئی کی میزبانی کروں اور اگر مجھے اُن کا نمبر مل جائے۔‘‘
مَیں نے ضیاء الدین سے پوچھا۔ اُنجوں نے ہنس کر کہا: ’’نیکی اور پوچھ پوچھ!‘‘ اور پھر ضیاء الدین نے واپسی پر میرا بڑا شکریہ ادا کیا کہ میری وساطت سے جو میزبانی اُنھیں ملی، اُس سے کافی مدد ملی اور بہت کچھ دیکھنے، سمجھنے اور سیکھنے کو ملا۔
چوں کہ ضیاء الدین کو مَیں ایک خوددار، شکر گزار اور قناعت پسند شخص کے طور پر بھی جانتا تھا۔ اس لیے مجھے بہت اچھا لگا۔ علاوہ ازین باہر رہنے والے دوست کی جانب سے ضیاء الدین کی میزبانی، وقت کی تنگی اور ملاقات کے ذکر نے اور بھی خوشی فراہم کی، جو دَراصل میزبان کا مہمان کے لیے ایک طرح سے خراجِ تحسین تھا۔
مجھے فخر محسوس ہوا کہ ضیاء الدین نے مذکورہ دوست کو گرویدہ کر لیا تھا۔
قارئین! 2009ء میں جب حالات خراب ہونے لگے، تو مجھے ضیاء الدین کی فکر ہونے لگی۔ رابطہ رہتا تھا۔ اُن کا احتجاج اور ردِ عمل میرے خیال میں ضرورت سے زیادہ تھا۔ شعوری آگاہی کی اُن کی تمام کاوشیں بہت ہی خطرناک ہو سکتی تھیں، جس سے وہ متفق نہیں تھے…… یا آنے والے حالات و واقعات کا سب لوگوں کی طرح اُن کو بھی دُرست طریقے سے ادراک نہ تھا۔ ایک وقت آیا جب مجھے لگا کہ شاید مَیں اُن کو زندہ پھر کبھی دیکھ نہیں پاؤں گا۔
سوات سے آبادی کے انخلا سے کچھ وقت پہلے بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ وہ سوات چھوڑ رہے ہیں، مگر دہشت گردی اور انسانیت دشمنی کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مَیں نے اس حوالے سے فون پر رابطہ کیا، تو سفر میں تھے اور دل برداشتہ تھے۔
2009ء ہی میں نشاط چوک میں سیدو شریف کی طرف گاڑی موڑتے ہوئے ضیاء الدین سٹرک کنارے چلتے نظر آئے۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ مَیں نے گاڑی پارک کرکے اُن کو گلے لگایا اور کہا کہ مجھے یقین کی حد تک گمان تھا کہ ہم کبھی دوبارہ زندہ نہ مل پائیں گے۔
تب سوات کا تاریخی ہجرت کا دور ختم ہو چکا تھا۔
ضیاء الدین مگر پُرعزم تھے۔ سوات کے خراب حالات کو برملا ایک منظم کوشش کے تحت مجرمانہ فعل گردانتے تھے۔ اُن کے عزم میں پختگی تھی۔ شاید ہی کچھ لوگ اس طرح اظہار کرتے ہوں گے، جیسے وہ کر رہے تھے…… انخلا سے پہلے اور اَب بعد میں۔ وہ اہلِ سوات کو قومی جد و جہد اور ان کی بیداری پر زور دے رہے تھے۔ بعد میں سوات قومی جرگے کے اہم رکن بن گئے۔ دہشت گردی، کرفیو کی غیر معمولی طوالت اور ریاستی ردِ عمل پر تنقید کرتے تھے۔
2009ء کے واقعات اور ناخوش گوار تجربات کے بعد مَیں نے محسوس کیا کہ اعتدال پسند اور استقامت پسند ضیاء الدین کے اندر یہ دونوں صفات کم ہوتی جارہی تھیں۔ ایک طرف وہ دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے، تو دوسری طرف ریاستی اداروں اور ریاست کی بے پروائی اور غیر ضروری تاخیر کو بھی حدفِ تنقید بنا رہے تھے۔ ساتھ ہی اُن کے امدادی کاموں میں بھی باقاعدگی اور تیزی آ رہی تھی۔ ایک لاوا تھا، جو اُن کے سینے اندر اُبل رہا تھا۔
2010ء کے سیلاب میں اُنھوں نے رابطہ کیا اور مجھے ایک بڑی رقم عطیہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ مَیں چوں کہ ہمیشہ مالی مشکلات اور معاشی بے ترتیبی کا شکار رہا ہوں، مگر اُس وقت مالی امداد سے معذرت کی…… جس پر اُنھوں نے متاثرین کی فہرستوں کو مرتب کرنے میں میری مدد کی درخواست کی۔ اُن کا امداد دینے کا طریقہ بہت ہی عجیب تھا۔ میڈیا اور شہرت سے پردہ کرکے گھر گھر جاکر امداد پہنچائی۔ وہ گراؤنڈ پر موجود رہے۔ 2011ء میں موثر طور پر وہ سوات کا مقدمہ پیش کر رہے تھے۔ مذاکرے، سیمینار اور پریس ریلیز اور تحاریر و تقاریر کے ذریعے سوات میں استحصال کے خلاف ایک موثر آواز بنے رہے۔ مسلسل دھمکیوں اور سیکورٹی رسک کے باوجود وہ اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے کو تیار نہیں تھے اور واقعی اُن کی تشویش روز افزوں بڑھتی گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اکتوبر 2012ء میں کم سن ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا سمیت سب نے ملالہ کے احتجاج اور ڈائری کو وجہ قرار دیا، مگر نجانے کیوں مجھے تب بھی لگ رہا تھا کہ ضیاء الدین کو چپ کرانے کے لیے ’’سافٹ ٹارگٹ‘‘ چنا گیا۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں سے بات کرتے ہوئے دہشت گردوں نے یہ موقف دیا۔ کا لعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ’’ملالہ یوسف زئی پشتون ثقافت کے برعکس نہ صرف مغربی اقدار کی حامی ہے، بلکہ اُس نے صدر اوباما کو بھی اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے۔ ‘‘
اُس وقت سوات قومی جرگہ پوری طرح سرگرم تھا اور تمام سربراہ کسی نہ کسی طریقے سے ٹارگٹ کیے جا رہے تھے۔ اس ٹارگٹنگ پر کھل کر جرگے کا موقف آ رہا تھا۔ اُس دن میں راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں میٹنگ میں تھا۔ چائے کے وقفے پر ٹی وی آن کیا تھا، تو ملالہ یوسف زئی پر حملے کی خبریں چل رہی تھیں۔ مَیں نے انتہائی پریشانی میں اپنے بہنوئی احمد شاہ کو فون کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مَیں ساتھ ہوں، ملالہ ہسپتال میں ہے اور ضیاء الدین پہنچ رہا ہے۔ بعد میں ملالہ یوسف زئی کو شفٹ کرنا پڑا۔ خیبرپختونخوا کے ماہر نیورو سرجنوں کی ٹیم کی مدد کے لیے ملٹری ہسپتال کے نیورو سرجن پہنچے، مگر زندگی اور موت کی جنگ جاری رہی۔ ملالہ یوسف زئی کے لیے جدید علاج فوری طور پر فراہم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پہلے سے سوات، بین الاقوامی میڈیا میں دہشت گردی کے شکار خطے کے طور پر نمایاں تھا۔ سکول کی بچیوں پر حملے کی وجہ سے مغربی سول سوسائٹی کو کھل کر طالبان کی مذمت کرنا پڑی۔ نتیجتاً ملالہ کو فوری طور پر صحت کے بہترین مواقع دینے کا مطالبہ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ اُس وقت کے وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف نے اس عمل کو دہشت گردی کا بزدلانہ فعل قرار دیا اور ملالہ کو بہترین طبعی امداد دینے کا وعدہ اور اپیل کی۔ ایک ائیر ایمبولینس میں ملالہ کو انگلستان منتقل کیا گیا اور دنیا بھر سے لاکھوں بچوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
ضیاء الدین یوسف زئی پاکستان میں رہ گئے۔ یوں وہ، اُن کے جذبات اور حیثیت سب کچھ ثانوی حیثیت اختیار کرگیا۔ مالی طور پر وہ اتنا مستحکم نہیں تھا کہ برطانیہ کا سفر اور وہاں رہایش کا بندوست کرسکتا۔ ساتھ ہی دیگر قانونی لوازمات کی تیاری میں موت سے لڑنے والی ایک بچی کے بے بس باپ کا درد اعصاب شکن تھا۔
ملالہ کے کئی آپریشن کیے گئے۔ متفرق خبریں مل رہی تھیں۔ وہ زندگی اور موت کی کش مہ کش میں تھی…… اور پھر وہ دن آگیا کہ ضیاء الدین اپنے خاندان کے ساتھ ایک مہذب ملک (انگلستان) پہنچ گیا، جہاں تحریر و تقریر کی آزادی کے ساتھ بہترین طبی سہولیات موجود تھیں۔
ملالہ صحت مند ہوتی گئی، مگر وہ چہرے کے ایک طرف کی اعصابی نظام کی مفلوجی کا شکار ہوکر رہی۔ سپیچ تھیراپسٹ اور فزیوتھیراپسٹ نے نیورولوجی کے شعبے کے ساتھ مل کر طبی معجزہ کرکے دِکھایا۔ ملالہ بولنے کے لائق ہوئی۔ تکلیف ہی سے سہی، مگر اُس کی آواز نے کئی ضمیروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اُس نے اپنے والد کی جد و جہد کو جاری رکھنے اور دہشت گردی کی مخالفت مزید سختی سے کرنے کا اعلان کیا۔
آصف علی زرداری صاحب نے دورۂ انگلستان کے موقع پر ملالہ سے خصوصی ملاقات کی اور ایک مکان جو پاکستانی ہائی کمیشن کی ملکیت تھا، بھی رہنے کو دیا۔ ضیاء الدین نے حکومتِ پاکستان کو درخواست دی کہ یہ مکان اُن کی ضرورت سے کہیں بڑا ہے اور ویسے ہی دہشت زدہ ملک پر بوجھ ہے، اس لیے اُن کو اُن کی چھوٹی فیملی کے حساب سے مکان دیا جائے۔
2014ء تک ملالہ کی آواز دنیا کے سات اَرب سے زیادہ لوگوں تک پہنچ گئی تھی اور اُسی سال اُس کو امن کے لیے عالمی ایوارڈ اور اگلے سال ’’انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز‘‘ کے لیے نام زد کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے ملالہ نے تعلیم کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا واحد موثر ہتھیار قرار دیا۔ کروڑوں لوگوں نے براہِ راست اُس کی تقریر سنی۔ اقوامِ متحدہ نے اپنے ایک فنڈ جو دنیا بھر میں بچوں کی تعلیم اور بہتر صحت کے لیے سرگرم تھا، کا نام تبدیل کرکے ’’ملالہ فنڈ ‘‘رکھ دیا۔
اسی اثنا میں برطانیہ ہی میں ضیاء الدین یوسف زئی کو اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام تعلیم کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے میں ملازمت مل گئی …… مگر وہ ایک طویل عرصہ مالی مشکلات کا شکار رہے۔
ملالہ کو ملنے والی انعامی رقم ملالہ نے پاکستان میں بچیوں کی تعلیم کے لیے عطیہ کر دی۔ سوات اور شانگلہ میں کئی پبلک اور پرائیویٹ سکولوں کو فنڈز کی فراہمی شروع کر دی۔ بے شمار طلبہ تعلیمی وظائف حاصل کرنے لگے۔ تورپیکئی (ملالہ کی ماں) ایک گھریلو ناخواندہ خاتون نے پڑھنا شروع کیا۔ اُن کی شاعری وطن سے محبت، وطن کی یاد اور امن کے پیغام پر مبنی تھی، میڈیا کے ذریعے سامنے آنے لگی۔
عملی طور پر ایک وطن پرست اور محب وطن ضیاء الدین اپنے خاندان کے ساتھ وطن بدر ہوگیا۔ پچھلے سال اُن کے لنڈیکس والے گھر پر کام کرنے والی خاتون کے لیے اُنھوں نے میرے نام پر کچھ امدادی رقم بجھوائی، جو بینک کے قانونی ضابطے پورے کرتے ہوئے نکالی گئی۔ اس کے بعد مجھے ایف آئی اے کی طرف سے انکوائری کے ایک سلسلے کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے کہا گیا کہ میرے نام کا اضافہ ’’پہلے سے موجود مالی امداد لینے والوں کی فہرست‘‘ میں ہوگیا ہے اور یہ کہ میرا ضیاء الدین کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ مَیں نے جواباً کہا کہ ضیاء الدین یوسف زئی نے یہ امداد میرے توسط سے ایک پرانی جاننے والی بزرگ خاتون کے لیے بھجوائی ہے، جو مَیں نے اُسی دن ادا کر دی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ بینک سے کئی مہینے بعد رقم وصول ہوئی تھی۔ مَیں نے بڑی مشکل سے کئی ثبوتوں اور گواہیوں کے بعد ایف آئی اے کو یقین دلایا۔
قارئین! مَیں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ضیاء الدین یوسف زئی کو تسلیم نہیں کیا…… اُن معنوں میں ہرگز تسلیم نہیں کیا، جس کا وہ حق رکھتا تھا۔ ہم نے باچا خان کو بھی تسلیم نہیں کیا، ہم نے بھگت سنگھ کی آزادی کی تحریک کو مذہبی تناظر میں مسترد کیا، ہم زمینی حقائق ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ ضیاء الدین یوسف زئی کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا گیا……!
دنیا بھر کے آزاد و مہذب ممالک نے اُن کو تسلیم کیا۔ وہ آج بھی طالبان حاکمیت کے خلاف سرگرم ہیں۔ افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کے دن گن رہے ہیں۔ وہ شاید واحد موثر آواز ہیں، جو اس وقت بھی بلند ہے…… بے انصافی، دہشت گردی، لاقانونیت اور ریاستی عدم تعاون کے خلاف، ریاستی نظر اندازی اور سرد مہری کے خلاف، انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے۔
مجھے یقین ہے کہ ضیاء الدین یوسف زئی تاریخ میں دُرست سمت کھڑے ہیں۔ وہ مختلف قسم کی جد و جہد میں ہے…… جس میں باچا خان، بھگت سنگھ، رابندرناتھ ٹیگور، مولانا عبید اللہ سندھی، سبھاش چندر بوس اور مولانا آزاد کی مشترکہ جھلک نظر آتی ہے۔ مذکورہ شخصیات کے خلاف بھی وفاداری اور غداری کا کارڈ کھیلنے والوں کی کمی نہیں رہی اور ضیاء الدین یوسف زئی کے ایمان کے فیصلے بھی اللہ تعالا کی جگہ بندوں نے کرنے کی کوشش کی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔