وعدہ خلافی ہمارا قومی شعار

Blogger Ikram Ullah Arif

ابھی ہمارا کالج چل رہا تھا۔ ایک سینئر دوست ملنے آیا تھا۔ اُس کو رخصت کرنے ہم باقی دوست ساتھ نکلے، تو اجازت لیتے ہوئے اُس سینئر دوست نے سب کو کہا کہ گھر سے کبھی پلاسٹک کے چپل (جوتوں) میں مت نکلیں۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
وہ ہماری نوخیزی کا دور تھا، سنی اَن سنی کردی۔ ہم نے وجہ پوچھی نہ اُنھوں نے وضاحت ضروری سمجھی۔ کالج سے یونیورسٹی اور پھر عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد کبھی خیال ہی نہیں رہا کہ عام معمول میں گھر کے اندر یا باہر کیسے جوتے پہنچے جائیں؟ کسی دن اچانک دوست کی وہ بات یاد آگئی تو قریب واقع ایک جفت ساز (جوتے بنانے والا، چمار، موچی) کی دُکان پر پہنچا اور چرم سے چپل بنانے کا آرڈر دے دیا۔
ضمنی طور پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہمارے گاؤں کی خوب صورتی اور مشہوری میں مقامی صرافوں اور جفت سازوں کا اہم کردار رہا ہے۔
یہاں کے صراف تو کئی دہائیوں سے مشہور ہیں، ان کا اپنا ایک خاص بازار اور یونین بھی ہے۔ کئی اضلاع بلکہ صوبے کے مختلف علاقوں سے لوگ ہمارے گاؤں میں سونے کے زیورات بنانے آتے ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے جفت سازوں کا کاروبار بھی چمکا ہوا ہے۔ اب جا بہ جا جفت سازوں کی دُکانیں سجی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ بڑی بڑی دُکانیں جو چھوٹے کارخانوں کی شکل اختیار کی ہوئی ہیں، جہاں ہر دکان میں ایک درجن تک کاریگر محنت کرکے نانِ شبینہ کماتے ہیں۔
خیر، مَیں نے ایک جفت ساز کو جوتے بنانے کا کہا ساتھ میں پوری رقم بھی ادا کردی اور جوتے وصول کرنے کی تاریخ پوچھ لی۔ جفت ساز نے کہا کہ ایک ہفتے بعد آکر اپنی چپل لے لیجیے گا۔ مَیں نے جواباً عرض کیا کہ ہفتہ نہیں پورے دس دنوں بعد وصول کرنے آؤں گا…… مگر دس دنوں کا مطلب دس دن ہی ہے۔ اُس نے کہا، ٹھیک ہے۔
پورے دس دن بعد جاکے معلوم کیا، تو چپل کیا وصول کرنا تھی، جفت ساز نے تو پیمایش ہی گم کردی تھی، جس کی مدد سے میری چپل بننا تھی۔
اب کیا کیا جاسکتا تھا۔ ’’انا للہ‘‘ کے الفاظ ادا کیے اور عرض کیا کہ حضور! اگر پیمایش مل نہیں رہی تھی، تو اخلاقاً آپ کی ذمے داری بنتی تھی کہ مجھ سے دوبارہ پیمایش لینے کے لیے کہتے…… مگر چوں کہ آپ کو احساس ہی نہیں تھا کہ کسی نے کام حوالے کیا ہے اور وہ کرنا ہے۔ لہٰذا جو پیسے مَیں نے آپ کو دیے ہیں، وہ آپ کے ہوگئے۔ اب مجھے جوتوں کی ضرورت نہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود  
دین کے نام پر کاروبار  
بھیک سے مزدوری بہتر ہے 
اچھائیوں میں مقابلہ و موازنہ کیجیے 
اندھی طاقت  
اس بات پر وہ ناراض ہوگئے اور بڑے بھائی کو شکایت لگائی۔ بھائی نے مجھ سے تاکیداً کہا کہ ہاتھ تھوڑا ہولے رکھا کرو!
مَیں نے جواباً عرض کیا، کیا آپ نے جفت ساز سے پوچھا تھا کہ اُس نے اپنا وعدہ پورا کیوں نہیں کیا؟
قارئین! یہ مسئلہ صرف جفت سازوں کے ساتھ نہیں، ہر کاریگر آپ کو ملکی حکم رانوں کی طرح ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتا ہے۔
ایک دفعہ چھٹیوں کے دن تھے۔ گھر میں ایک جگہ پر لوہا پڑا ملا۔ اُٹھایا اور لوہار کے پاس پہنچایا۔ عرض کیا، اس سے آپ جوتوں کے لیے اسٹینڈ کتنے میں بنائیں گے؟ اُس نے کچھ رقم بتائی، جو ادا کی گئی۔ پوچھا، اسٹینڈ کب تک تیار ہوگا؟ اُس نے بھی ہفتہ بھر وقت دیا۔ جواباً اُس کو بھی بتایا کہ مَیں دس دن بعد وصول کرنے آؤں گا، مگر اسٹینڈ تیار ہونا چاہیے۔ اُس نے بھی کہا کہ بے فکر رہیے۔
مگر دس دن بعد جاکے پوچھا، تو معلوم ہوا کہ جس نے مجھے بے فکر رہنے کا کہا تھا، وہ خود بے فکر ہوگیا تھا۔ لہٰذا اسٹینڈ تیار نہیں ہوا۔ اُس کو بھی کہا کہ پیسے اور لوہا آپ کو مبارک ہو، اَب مجھے نہیں چاہیے اسٹینڈ۔
اُس موقع پر بہت لے دے ہوئی اور پھر دو دنوں بعد ایک جاننے والے کے ہاتھوں لوہار نے جوتوں کا اسٹینڈ گھر پر بجھوا ہی دیا۔
ایک واقعے کا ذکر چھڑتا ہے، تو دوسرا یاد آتا ہے۔ ایک دن ایک درزی کو کپڑے دیے۔ کہنے لگا، چار دن بعد آکے لے جائیں۔ چار دن بعد پوچھا، تو اُس نے معذرت خواہانہ انداز میں ہفتہ بھر انتظار کا کہا۔ یوں ہفتہ مہینے میں بدل گیا اور مہینے بعد زبردستی اُس سے اپنا کپڑا منگوایا اور دوسرے درزی کو دے دیا۔ اُس نے بھی دو دن کا کَہ کر پورے دو ہفتے بعد کپڑے سلوا کر بھجوائے۔
قارئین! یہ کہانی صرف جفت ساز، لوہار اور درزی تک محدود نہیں، بلکہ آپ اپنے اِرد گرد نظر دوڑائیں، تو ہر کاریگر آپ کے ساتھ وہی کرتا ہے، جو پاکستانی حکم ران ملک کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں۔
کوئی پچاس ساٹھ سال ہوگئے ہیں، جب ہم نے آئی ایم ایف کے سہارے جینا شروع کیا ہے۔ ہر حکم ران کہتا ہے کہ یہ آخری باری ہے۔ ہر نیا آنے والا آئی ایم ایف کے در پر سجدہ لگا دیتا ہے۔
یہ مَیں بہک کر کہاں نکل گیا!
ان باتوں کا کیا فائدہ…… جب گلی محلے میں رہنے والے کاروباری وعدہ ایفا نہیں کرتے، وقت کی پابندی نہیں کرتے اور گاہک کی تسلی کا کام نہیں کرسکتے، تو حکم رانوں سے کیا شکوہ، جن کا کام ہی عوام کو کالانعام بنانا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے