سابق فوجی آمر جنرل ایوب خان نے سیاسی دباو کو ختم کرنے اور اپنے آپ کو ’’قانونی جواز‘‘(Legal Cover) دینے کے لیے 1964ء میں صدارتی انتخابات کا اعلان کیا۔ یوں پاکستان کی تاریخ کے پہلے صدارتی انتخابات (Presidential Elections) دو جنوری 1965ء کو منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں چار امیدواروں نے حصہ لیا…… لیکن اصل مقابلہ فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان جو ’’کنونشن مسلم لیگ‘‘ کے امیدوار تھے، اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان تھا…… جنھیں متحدہ اپوزیشن کے پنج جماعتی اتحاد کی حمایت حاصل تھی۔ ان انتخابات میں عوام کے بجائے ایوب خان کی ’’بنیادی جمہوریتوں‘‘ (Basic Democracies) کے نظام کے تحت منتخب ہونے والے 80 ہزار کونسلروں کو رائے دینے کا حق حاصل تھا، جن میں 40 ہزار کا تعلق مشرقی پاکستان یعنی بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) جب کہ باقی 40 ہزار کا تعلق مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) سے تھا۔
اختر حسین ابدالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akhtar-hussain/
مذکورہ نظام کے تحت منتخب ہونے والے 80 ہزار کونسلروں نے مادرِ ملت کے مقابلے میں ایوب خان کو ایک اور مدت یعنی اگلے 5 سال کے لیے صدرِ پاکستان کی حیثیت سے منتخب کیا۔ انتخابی نتائج کے بعد ایوب خان پر انتخابات میں خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی میں دھاندلی کے شدید الزامات لگے۔
قارئین، اس الیکشن میں ایوب خان کا انتخابی نشان ’’گلاب کا پھول‘‘ اور مادرِ ملت کا ’’لالٹین‘‘ تھا۔ مغربی پاکستان اور خاص کر کراچی کے عوام کی اکثریت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تھی۔ پاکستان ٹیلی وِژن (پی ٹی وی) کے پروڈیوسر اور سینئر صحافی شبیر ابن عادل کے بقول: ’’لیاقت آباد اور ناظم آباد میں لوگوں کا وہ ہجوم میں نے خود دیکھا، جنھوں نے بڑی بڑی لالٹینیں بنا کر سڑکوں کے کنارے لگائی تھیں، جب کہ گلاب کے پھول کا نشان نظر نہیں آتا تھا۔ ہمارے محلے میں محض ایک خاندان ہی ایوب خان کا حامی تھا۔ ان کے علاوہ سبھی مادرِ ملت کے پرستار تھے۔
قارئین، الیکشن کمیشن نے اس صدارتی انتخاب کے لیے ایک ماہ کی انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی تھی، لیکن جب اِسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ عام لوگ محترمہ فاطمہ جناح کو سننے کے لیے جوق در جوق آ رہے ہیں، تو پھر الیکشن کمیشن نے ہر فریق کے لیے زیادہ سے زیادہ 9 ’’پروجیکشن میٹنگز‘‘ (Projection meetings) منعقد کرنے کی حد مقرر کر دی…… جن میں صرف ’’الیکٹورل کالج‘‘ (Electoral College) کے بی ڈی ممبرز (Basic Democrates) اور صحافی شریک ہوسکتے تھے۔ جب کہ عوام کو اُن اجلاسوں میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔
اس الیکشن میں سب سے عجیب بات یہی تھی کہ ایوب خان، جنھیں عام طور پر ایک لبرل اور سیکولر شخصیت کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیاجاتا تھا، اُنھوں نے کئی علما سے عورت کے سربراہِ مملکت ہونے کے خلاف فتوا لیا۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
ایک ملین ڈالر کا سوال، انتخابات بروقت ہوں گے؟  
انعقاد سے قبل ہی انتخابات متنازع ہوگئے  
وکلا تنظیمیں، الیکشن کمشنر اور عام انتخابات  
انتخابات بہ ہر صورت 8 فروری کو ہوں گے 
قارئین، جنرل ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح پر انتخابی مہم کے دوران میں غداری کا ٹھپا لگاتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ فاطمہ جناح ایک آزاد اور خودمختار پختونستان کے لیے باچا خان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ کیوں کہ باچا خان اور اُن کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) اس الیکشن میں فاطمہ جناح کو سپورٹ کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ فاطمہ جناح نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ولی خان میرے جلسے کی صدارت نہیں کریں گے، تو مَیں پشاور کے جلسے میں شرکت نہیں گروں گی۔
قارئین، اس صدارتی الیکشن میں فاطمہ جناح کو کراچی سے 1046 اور ڈھاکہ سے 353 ووٹ ملا تھا۔ جب کہ ایوب خان کے حصے میں بالترتیب 837 اور 199 ووٹ آیا تھا۔
نیز سندھ کے تمام جاگیر دار گھرانے ایوب خان کے ساتھ تھے، جب کہ فاطمہ جناح کے ساتھیوں میں جی ایم سید، حیدر آباد کے تالپور برادران اور بدین کے فاضل راہو شامل تھے۔ اس طرح پنجاب کے تمام سجادہ نشین سوائے پیر مکھڈ صفی الدین، سیال شریف کے پیروں نے مادرِ ملت کے خلاف فتوا دیا، جب کہ جماعتِ اسلامی کے بانی امیر سید ابوالااعلیٰ مودودی نے محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی۔
قارئین، سرکاری ذرائع کے مطابق اس صدارتی انتخاب میں ووٹنگ کی شرح 97.5 فی صد تھی۔ ڈالے گئے کل ووٹوں کا 64 فی صد جنرل ایوب کو ملا تھا۔ مغربی پاکستان میں ان کی مقبولیت مسلم تھی، جہاں اُنھیں 74 فی صد ووٹ ملا تھا، لیکن کراچی اور مشرقی پاکستان (بنگال) میں مقابلہ بڑا سخت تھا، جہاں محترمہ فاطمہ جناح نے نے کانٹے دار مقابلہ کیا تھا۔ اگر یہ انتخاب ’’ایک آدمی، ایک ووٹ‘‘ (One man, One vote) کی بنیاد پر ہوتا، تو محترمہ فاطمہ جناح کی کام یابی یقینی تھی، جو صدارتی نظام کی بجائے پارلیمانی نظام حکومت کی حامی تھیں…… لیکن ایوب خان صدر کی حیثیت سے پوری سرکاری مشینری اور ہر طرح کا دباو برتنے کے بعد حسبِ توقع بھاری اکثریت سے فاطمہ جناح کو ہرانے میں کام یاب ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی حلقوں میں جو مایوسی پھیلی، اُس کے تناظر میں 3 برس بعد یعنی 1968ء کو ایوب خان کے خلاف بھرپور ملک گیر احتجاج کی بنیاد رکھ دی گئی اور اسی وجہ سے ایوب خان کو مارچ 1969ء میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔