کسی بھی ادارہ سے ریٹائرمنٹ سرکاری ملازمت کا حصہ ہے اور کسی بھی سرکاری ملازم کے لیے اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں کہ وہ اپنی مدتِ ملازمت پوری کرکے باعزت طور پر سبک دوش ہو جائے۔ الحمد للہ، آج ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب محکمۂ صحت کے ساتھ اپنی 33 سالہ رفاقت پوری کرکے باعزت طور پر سبک دوش ہوگئے۔
تمھارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا تھا
تمھارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا
ڈاکٹر شاہد اقبال کی خوش بودار شخصیت ویسے تو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ’’صوفی‘‘ کی طرح اُن کا نام نامی ہی کافی ہے۔
مَیں ترا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
جس طرح خوش بو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہوتی، اس طرح درویشی کسی بھی طمع سے پاک ہوتی ہے، قابلیت کسی بھی سفارش سے مبرا اور خوب صورتی کسی زیور کی محتاج نہیں ہوتی۔
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
خالد حسین کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/khalid/
ڈاکٹر شاہد صاحب بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ ایک درویش منش، صاف و شفاف اور خوب صورت دل رکھنے والا، ملن سار، ڈیوٹی فُل، دوسرے کو اپنے سے بڑھ کر عزت و تکریم دینے والا، سچا، سُچا، باوقار، یاروں کا یار، خوبیوں سے مرصع، جی دار، پہاڑوں کا سچا عاشق، ٹورسٹ، ٹریکر اور سب سے بڑھ کر ایک بہترین انسان…… دوسروں کے دکھ سکھ میں کام آنا اُن کی عادت، مسیحائی اُن کی فطرت، کام، کام اور بس کام ان کی جبلت، نہ تھکنے والے، نہ رُکنے والے، سارا دن چل سو چل۔
قارئین! ہم دوست سوچا کرتے ہیں کہ وہ اپنی ڈیوٹی کے اتنے ٹائٹ شیڈول میں سے اتنے سارے کاموں کے لیے کیسے وقت نکال لیتے ہیں……! بورے والا کی جان ہیں۔ شہر میں کوئی بھی گیٹ ٹو گیدر ہو، کوئی مشاعرہ ہو، کوئی مجلس ہو، کوئی کانووکیشن ہو، کوئی میٹنگ ہو…… اُنھیں بلایا جاتا اور وہ حاضر ہو جاتے۔
کسی دوست کے ہاں دعوت، کہیں ٹیوب ویل پر جا کر ’’ڈوبی پروگرام‘‘ ہو، کہیں کھابا پارٹی ہو، کسی دوست کی شادی غمی، کہیں آوُٹنگ کا پروگرام بنا…… وہ ہمہ وقت تیار بلکہ لگا تار بے قراری کی حد تک تیار۔
ٹورازم اور ٹریکنگ اُن کے شوق، اُن کی آنکھوں میں وحشت اور دماغ میں فتور ہے، پہاڑوں سے عشق ان کی جبلت اور ان کی فطرت کا حصہ ہیں۔ تقریباً ہر سال پہاڑوں کی یاترا کرنا ان کا معمول۔ انساں کیا ہر ذی شعور اور ہر عام شخص سے پیار اور احترام سے پیش آنا اُن کا اصول۔ ریٹائرمنٹ کے وقت اُن کے کولیگ، سٹاف اور ہسپتال کے دوسرے چھوٹے سے چھوٹے عملے کا ’’ری ایکشن‘‘ دیدنی تھا۔ افسردہ افسردہ سے چہرے اور آنکھوں میں نمی سی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اُنھیں آج کسی بات کی کمی سی تھی۔
ڈاکٹر صاحب فرشتے تو نہیں، مگر فرشتہ صفت ضرور ہیں۔ چھوٹے سٹاف سے ہمیشہ عزت و وقار سے پیش آتے۔ اُنھیں بھرپور احترام دیتے۔ ہسپتال کے ایم ایس عمران بھٹی صاحب نے اپنی کرسی اُن کے لیے خالی چھوڑ دی اور خود ایک طرف جا کر ایک صوفے پر براجمان ہوگئے۔ فرمانے لگے، آج آپ ہی ایم ایس ہیں۔ یہ سارا دفتر آپ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہے۔
اُس موقع پر باری باری سب دوستوں نے اُنھیں گل دستے پیش کیے، گل پاشی کی، پھولوں کے ہار پہنائے۔ ایم ایس صاحب سے لے کر اُن کے کولیگ ڈاکٹر صاحبان، اُن کا جملہ سٹاف، اُن کا لیڈیز سٹاف، ٹی بوائے سے لے کر گارڈ تک سب نے اُن سے اپنی والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔ وہ چاہے ڈاکٹر عزیر ریڈیالوجسٹ ہوں، یا ڈاکٹر انور گجر صاحب ہوں، راؤ نعیم لیب انچارج ہوں، یا عابد گیٹ کیپر، مزمل سکیورٹی گارڈ ہو، یا شاہد گجر سپیشل اسسٹنٹ، یہاں تک کہ ساری ہیڈ نرسیں…… سب سے باری باری ملے۔ اُنھوں نے چھوٹے سے لیکر بڑے افسر تک ہر کسی سے اپنی جانے اَن جانے میں ہونے والی کسی بھی غلطی اور کوتاہی کی معذرت کی۔
سانس در سانس ہجر کی دستک
کتنا مشکل ہے الوداع کہنا
رخصتی کے لمحات اکثر و بیشتر بہت تلخ ہوا کرتے ہیں…… مگر یہ ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب کی شخصیت کا اعجاز ہے کہ اُنھوں نے ان لمحات کو خوش کن بنائے رکھا۔ اُن کے احباب کے چہرے تھوڑے افسردہ تھے، مگر ڈاکٹر شاہد صاحب بذاتِ خود ہشاش بشاش اور خوش و خرم تھے۔ آج اُنھوں نے معروف شاعر عابد علی عابد کی اس بات کی نفی کر دی کہ
دمِ رُخصت وہ چپ رہے عابدؔ
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
نہ تو اُنھوں نے چپ اختیار کی اور نہ کسی کی آنکھ میں کاجل پھیلا۔ اُنھوں نے سروس کے دوران میں زندگی سے بھرپور وقت گزارا۔ کسی بھی بات کو اپنے سر پر سوار نہ کیا۔ اُن کے بقول خوشی غمی، تنگی تلخی، کلفت و الفت، تن درستی اور بیماری اللہ پاک کی طرف سے انسان کو آتی ہے۔ یہ لمحے بھی انسان کا امتحان ہوتے ہیں۔ اُنھیں رو کر گزار لو، یا ہنس کر…… یہ آپ پر منحصر ہوتا ہے۔ تو بہتر ہے کہ اسے خوش خوش اور اچھے طریقے سے بسر کرو۔
دو لفظوں کی ہے دل کی کہانی
یا ہے محبت، یا ہے جوانی
اُنھوں نے بورے والا کے نواح میں چک نمبر 541/EB کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والدِ محترم ایک کاروباری شخصیت تھے۔ پھر بورے والا شہر میں بسیرا کرلیا۔ ابتدائی تعلیم کچھ بورے والا میں، تو کچھ ساہیوال میں حاصل کی۔ سنہ 1983ء میں میڈیکل میں داخلہ لیا۔ 1988ء میں اُسے کامیابی سے پاس کر لیا اور پھر ہاؤس جاب شروع کر دی۔ 1992-91ء میں ایف آر سی ایس کے لیے لندن چلے گئے اور وہاں سے پارٹ ون مکمل کیا۔ واپس آکر چار پانچ ماہ شیخ زاہد ہسپتال لاہور میں خدمات انجام دیں۔ 1993ء میں گورنمنٹ جاب میں سلیکشن ہو گئی، تو سروس ہسپتال لاہور میں اس کی شروعات کیں۔ 1995ء میں ایف آر سی ایس پارٹ ٹو کرنے کے لیے پھر سے لندن روانہ ہوگئے، مگر بوجوہ ناکام لوٹے۔ دوبارہ کوشش کی مگر بار بار کوشش کے باوجود اُن کا ویزہ پرابلم حل نہ ہوسکا…… اور وہ پارٹ ٹو نہ کرسکے۔ پھر بورے والا میں ’’ٹی ایچ کیو ساہوکا‘‘ میں میڈیکل آفیسر کے طور پر گریڈ 17 میں پوسٹنگ ہوئی۔ اس کے بعد ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیٹر کے طور پر وہاڑی میں پانچ سال گزارے۔ پروگرام ڈائیریکٹر ڈسٹرکٹ ہیلتھ پی ایم ڈی سی دو سال، ٹی بی ڈاٹ پروگرام کے پہلے کوآرڈی نیٹر بنے، پھر گگو میں تقرر ہوا، ڈبلیو ایچ اے سرویلینس آفیسر وہاڑی متعین ہوئے۔ جس میں وہاڑی کے ساتھ ساتھ پاکپتن اور بہاولنگر کی سفری صعوبتیں در کر آئیں۔ روزانہ نئی منزل، روزانہ نیا سفر پیش آتا۔ والدِ محترم نے اس سفر در سفر پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا، تو اُسے خیر آباد کَہ ڈالا۔ پھر پولیو پروگرام کے ڈسٹرکٹ سرویلینس کو آرڈی نیٹر بنے گگو منڈی و ساہوکا میں۔ 2013ء میں ٹی ایچ کیو میں ایم اُو کے طور پر متعین ہوئے۔
ان کی زیادہ تر محکمانہ سروس ایڈمنسٹریٹر کے طور پر گزری۔ گرچہ وہ اس کام میں زیادہ خوش نہ تھے۔ ان کے بقول مینجمنٹ کے کام میں پیسا نہیں۔ اگر ہے، تو وہ حرام کے ذرائع سے ملتا ہے، جو اُن کی جبلت کے خلاف تھا۔ گرچہ 2017ء میں اُنھوں نے اپنا ایک ذاتی ہسپتال بھی بنا لیا تھا…… مگر وہ اسے خاطر خواہ وقت نہ دے سکے اور وہ عمارت آج کے دن تک کسی دوسری پارٹی کے پاس ٹھیکے پر ہے۔ مینجمنٹ کورس کی تکمیل کے بعد ایم ایس پاکپتن پھر ایم ایس چیچہ وطنی اور پھر ایم ایس میاں چنوں بن گئے۔ جہاں اُنھیں اُن کی بہترین خدمات کے اعتراف پر ’’بیسٹ ایم ایس آف دی ائیر‘‘ کا ایوارڈ بھی ملا۔ 2019ء میں ڈی ڈی ایچ اُو کے طور پر بورے والا تعینات ہوئے۔ کرونا کا موذی مرض آیا، تو اس کی بیخ کنی کے لیے اپنا دن رات ایک کر دیا۔ بدقسمتی سے وہ خود بھی اس جان لیوا مرض کا شکار ہوگئے۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر اُنھیں لاہور شفٹ کر دیا گیا۔ جہاں پر اُنھوں نے بڑی ہمت و استقامت سے زندگی و موت کی جنگ لڑی اور کامران لوٹے۔ بعد از صحت یابی سنہ 2021ء میں ان کی پوسٹنگ ڈی ایچ کیو ہسپتال وہاڑی میں ایم ایس کے طور پر ہوگئی۔ مگر جلد ہی اسے خیر آباد کَہ دیا اور اپنے آخری دن تک ٹی ایچ کیو ہسپتال بورے والا میں تعینات رہے۔ بار بار آفرز کے باوجود بھی کوئی ’’کی پوسٹ‘‘ حاصل نہ کی۔ اپنی سبک دوشی سے چند دن قبل اُنھیں گریڈ بیس بھی مل گیا، مگر اُنھوں نے سبک دوش ہونا تھا اور ہوگئے۔
وہ ایک ایسے چھتناور درخت کی طرح ہیں جس کے سائے میں چھوٹے بڑے، کم زور و لاچار، امیر و غریب سب پرورش پاتے ہیں۔ زندگی کے آگ برساتے سورج کی تلخیاں اپنے بدن پر جھیل کر دوسروں کو سکون پہنچا کر اُنھیں قلبی راحت ملتی ہے۔ بورے والا کی تاریخ میں اُن کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ہر شخص تیرا نام لے
ہر شخص دیوانہ تیرا
طب و جراحت تو ڈاکٹر صاحب کا خاص شعبہ تھا، جس میں پوری تن دہی سے کام کرکے اُنھوں نے اپنا نام بھی بنایا، اور وہ اس میں وہ مکمل طور پر کامیاب رہے…… مگر بقولِ بدھا، ’’زندگی اتنی بھی سنجیدہ نہیں، جتنی انسان نے بنالی ہے۔‘‘ ٹورازم اور ٹریکنگ اُن کا پسندیدہ مشغلے اور شوق ہیں…… جس کے لیے اُنھوں نے پاکستان کے شمالی جات کا کونہ کونہ چھان مارا۔ چار چھٹیاں بھی ملتیں، تو اُنھیں کیلکولیٹ کرکے شمالی علاقہ جات کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ بہت سے مشکل ترین ٹریک بھی کر ڈالے۔ پہاڑی اونچ نیچ سے بھی یوجتے رہے، مگر پہاڑ کی دل کشی کو بھی پوجتے رہے۔ جنگل بیابان اور ویرانے چھان مارے۔ برفیلی بلندیوں کو بھی نہ چھوڑا۔ دنیا کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ تک بھی گئے۔ دنیا کے سب سے اونچے پہاڑوں پر قدرتی طور پر بنی برف کی جھیل کا طواف بھی کیا۔ بہت سی مشکل ترین اور لمبی لمبی برف سے ڈھکی راہوں پر چل چل کر برفانی ٹریک بھی کیے۔ ایک ایسے ہی ٹریک پر چلتے، جسے ’’لپکے لاء ٹریک‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، میں ایک پچاس فٹ گہری برفیلی دراڑ میں گرگئے۔ ’’روپ اَپ‘‘ ہونے کی وجہ سے تقریباً پندرہ فٹ نیچے تک لٹک گئے، مگر پھر بھی ہمت نہ ہاری اور خاصی کوشش اور دوسرے ساتھیوں کی لگاتار محنت اور جد و جہد سے اس موت کی کڑکی سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
ہے ان کی ساری زندگی محبتوں سے ہویدا
خود پہاڑوں کے عاشق، پہاڑ بھی ان کے شیدا
پہاڑوں کی کوئی بات، یا کہیں کوئی پہاڑوں کا ذکر کرے، یا کہیں پر پہاڑوں سے محبت کرنے والوں کا کوئی اکٹھ ہو، وہ فوراً وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ پہاڑوں کی باتیں کرکے اور سن کے اپنے جی کو بھرماتے ہیں۔ پہاڑ اُن کا نشہ ہیں۔ پہاڑ اُن کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ پہاڑ اُن کی فطرت اور پہاڑ اُن کا جاگنا سونا ہیں۔ یاروں کے یار ہیں۔ خود فرمایا کرتے ہیں کہ اللہ کریم نے مجھے اپنی ہر دنیاوی نعمت سے نوازا ہے۔ مجھے زندگی میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں آنے دی۔ مال و دولت دیا، عزت و شہرت دی۔ گاڑیاں، کوٹھی، بینک بیلنس اور اولادِ صالح سے نوازا۔
پیسے کی اُنھیں بھوک نہیں۔ وہ فطرتاً قناعت پسند ہیں، جو ملا جیسا ملا صبر شکر کر کے کھا لیا۔ وہ کھانے میں مکھیاں نہیں نکالتے…… بلکہ الحمد للہ کَہ کے جو ملا جیسا ملا چپ چاپ کھا جاتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کسی کو پرکھنا ہو، تو اُس کے ساتھ سفر کرو۔ الحمد للہ، مَیں نے ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب کے ساتھ ڈھیر سارے اسفار کیے ہیں۔ ڈھیر سارے شمالی علاقہ جات کی سیر اُن کی مدعیت میں کی ہے۔ اُنھیں ہر لحاظ سے ایک بہترین ساتھی پایا ہے۔ میرے پہلے سفرنامے ’’وادیِ کمراٹ اور باڈگوئی پاس‘‘ کا دیباچہ بھی انھوں نے لکھا ہے۔ اس سفر میں بھی ہم اکٹھے تھے۔ میرے دوسرے سفرنامے ’’سفرِ عشق و جنوں‘‘ میں اُن کا رول اور کردار کلیدی ہے۔
ریٹاٹرمنٹ کے بعد کی زندگی دلچسپ ہونے کے ساتھ زندگی کا ایک نیا اور روشن باب ہوتی ہے۔ ایک ایسا وقت جب آپ کے پاس آرام کے لا محدود لمحات ہوتے ہیں۔ سروس کے دوران کی ’’ہیکٹک‘‘ زندگی کے بعد ایک دم سے ساری مصروفیات تبدیل ہو جاتی ہیں…… یا بالکل بدل جاتی ہیں۔ سروس کے دوران میں وہ اکثر اوقات سیر سپاٹے کے لیے وقت کم ہونے کی شکایت کیا کرتے تھے۔ اب ’’یہ گھوڑا اور یہ گھوڑے کا میدان‘‘ کے مصداق اُن کے پاس کھلا وقت ہوگا۔ گرچہ بورے والا شہر میں ’’شاہد سرجیکل ہسپتال‘‘ کے نام سے اُن کا ذاتی ہسپتال بھی ہے، جہاں پر اب وہ اپنا زیادہ تر وقت گزارا کریں گے اور بورے والا شہر اور اس کے گرد و نواح کے لوگوں کی خدمت کیا کریں گے ۔ اس سے پہلے بھی وہ اس ہسپتال کے زیادہ تر آپریشن خود کیا کرتے تھے۔ کبھی ہمارے کسی جاننے والے نے یا کسی غریب شخص نے اُن سے فیس یا آپریشن کے دوران میں آنے والے اخراجات پر کوئی رعایت مانگی، تو وہ کھلے دل سے اُس میں چھوٹ دے دیا کرتے تھے۔ ہم دوست کسی کی سفارش کر دیتے کہ سر یہ واقعی ایک غریب آدمی ہے اور یہ رعایت کا صحیح حقد ار ہے، تو وہ کہتے کہ جیسے آپ کی مرضی۔ کوئی جتنے بھی ان کو پیسے دیتا، وہ اُنھیں بغیر گنے چپ چاپ رکھ لیتے۔ وہ دوسروں کی خدمت عبادت سمجھ کر جو کرتے ہیں۔
کہاں تک سنوگے کہاں تک سناؤں
کے مصداق ڈھیر سارے قصے کہانیاں ہیں، ڈھیر سارے واقعات ہیں۔ ڈھیر ساری ہڈ بیتیاں اور ڈھیر ساری جگ بیتیاں ہیں۔ ڈھیر سارے یادگار لمحات ہیں، جو اُن کے ساتھ بسر کیے۔ ڈھیر سارے واقعات ہیں جو اُن کے ساتھ سفر کرتے ہوئے پیش آئے۔ پورے پاکستان میں اُن کی شناسائی ہے۔ اُنھیں جگ جانتا ہے۔ جدھر کو بھی منھ کریں، اُن کے چاہنے والے مل جاتے ہیں۔ وہ چاہے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی دور دراز وادیاں ہوں، یا شہرِ اقتدار کے پُررونق بازار…… چولستان کے ریتلے ٹیلوں میں بھنگڑا ڈالتے گرمی کے ہیولے ہوں، یا آگ برساتے سورج کی لہروں سے بچتے بچاتے، وہاں پر بستے باشندے ہوں…… یا برفیلی بلندیوں پر ٹھنڈی ٹھار زندگی کے برفانی دوزخ میں زندگی بِتاتے لوگ…… وادیِ مہران کی صدیوں پرانی سانس لیتی تہذیب کے باسی ہوں…… یا بلوچستان کی بھولی بسری کہانیوں کے کرداروں کے گرد کس مہ پرسی کے عذاب سہتے بے چارے بے سہارے لوگ…… پنج پانیوں کے گرد لہلہاتی فصلوں میں بسیرا کیے پنجاب کے دھرتی کے شینہ جوان ہوں، یا سوات اور گلگت بلتستان کی خوب صورت وادیوں میں بستے خوب صورت و خوب سیرت لوگ…… ہر طرف اُن کی جان پہچان ہے۔ پورے ملک سے یہاں تک کہ غیر ملک سے کوئی ٹورسٹ، چاہے اُس کا تعلق ٹورازم کے کسی بھی شعبے سے ہو، اُس کے لیے اُن گھر کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مہمان کی اپنی جان سے زیادہ حفاظت اور اپنی بساط سے بڑھ کر سیوا کرتے ہیں۔ وہ بورے والا ٹریکرز کلب کے روح رواں بھی ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے پورے پاکستان سے سیاحوں کو بلاکر اپنے شہر بورے والا میں ان کا ایک بڑا اکٹھ کرتے ہیں۔ جس میں ٹورازم کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو مختلف میڈلز سے نوازا جاتا ہے۔ اُن کے لیے بہترین قیام و طعام کا بندوبست کرنا بھی اپنا فرضِ عین تصور کرتے ہیں۔
گاہے بگاہے بورے والا ٹریکرز کلب کے جملہ ممبران کو اپنے گوشۂ نعمت ’’قراقرم ہاؤس‘‘ پر بلا کر اُن سے گپ شپ لگا کر مختلف موضوعات پر صلاح مشورہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ سب کام دوسروں سے صلاح مشورے کے بعد فائنل کیا کرتے ہیں۔ دوست اُن سے دلی پیار کرتے ہیں۔ سبک دوشی کے روز بورے والا ٹریکرز کلب کے دوستوں نے ٹی ایچ کیو ہسپتال جا کر اُنھیں رسیو کیا۔ اُنھیں گل دستے پیش کیے، اُن پر گل پاشی کی اور پھر ایک جلوس کی شکل میں بڑے عزت و احترام سے اُنھیں اُن کے گھر تک چھوڑا۔ جہاں پر مبارک باد کی ایک اور خوش کن محفل جمی۔ شغل میلہ، گپ شپ، تیز ترین اور کاٹ دار جملوں کا تبادلہ کرکے محفل کو کشتِ زعفران بنا دیا گیا۔
جہاں بورے والا کے تاتاری جمع ہوں وہاں ’’کھابا پروگرام‘‘ کا ہونا لازم و ملزوم ہوتا ہے ۔ لہٰذا کل بھی تھوڑا کھاؤ پیو پروگرام چلا۔
دعا ہے کہ اللہ کریم ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب کی بقیہ زندگی مزید خوشیوں سے بھر دے۔ اُنھیں وہ کچھ عطا کرے جو اُن کے وہم و گمان بھی نہ ہو، آمین…… یا رب العالمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔