اسلام آباد اور کراچی کے بعد اب لاہور میں بھی پلاسٹک سے بنی ہوئی خوب صورت سڑک تیار ہوگئی ہے۔
پاکستان میں سب سے پہلے پلاسٹک سڑک اسلام آبادمیں سی ڈی اے نے ایف 9 پارک میں کچرے کو استعمال کرتے ہوئے 1 کلومیٹر طویل سڑک بناکر تجربہ کیا، جو کامیاب رہا۔ 1 کلومیٹر سڑک کو مکمل کرنے کے لیے 10 ٹن پلاسٹک کا کچرا استعمال کیا گیا، جب کہ منصوبے کی کل لاگت 21 ملین تھی۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
اس کے بعد اسلام آباد کے سیکٹر F6 کے قریب واقع ’’اتاترک ایونیو‘‘ کے نام سے پلاسٹک کی سڑک بنائی گئی ہے، جس کے بعد کراچی کی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن (DMC) ساؤتھ نے مقامی تعاون کے ساتھ 2.5 ٹن پلاسٹک ویسٹ استعمال کرتے ہوئے 730 فٹ لمبی اور 60 فٹ چوڑی ’’فریئر ٹاؤن‘‘ میں پلاسٹک کی سڑک بنا ڈالی۔
یہ دراصل وہ کچرا ہے جس سے ہم آئے دن تنگ ہوتے رہتے ہیں۔ خاص کر بارشوں کے موسم میں جس کی وجہ سے ہمارا سیوریج سسٹم بند ہوجاتا ہے۔
پاکستان ویسے بھی اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جو زیادہ فضلہ پیدا کرتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 30 ملین ٹن سے زیادہ ٹھوس فضلہ پیدا ہوتا ہے، جس میں سے 9 فی صد پلاسٹک ہوتاہے۔
دوسری جانب اگر ہم پلاسٹک کے تھیلوں کی بات کریں، تو پاکستان میں صرف ایک سال میں 55 ارب پلاسٹک کے تھیلے بنتے ہیں۔ آپ ان اعدادوشمار سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لینڈ فلز اور سمندروں میں پلاسٹک کا کتنا فضلہ پھینکا جاتا ہے۔
اگر ہم پلاسٹک کی سڑکوں کی ابتدا کو دیکھیں، تو 11 ستمبر 2018ء کو نیدرلینڈز کی میونسپلٹی ’’زوول‘‘ میں دنیا کی پہلی پلاسٹک سڑک بنائی گئی تھی، جس کا تصور "KWS” کے موجد ’’این کوڈسٹال‘‘ اور ’’سائمن اورٹسما‘‘ نے دیا تھا۔
ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی پلاسٹک کے کچرے سے سڑکیں بنائی جاچکی ہیں۔ 2004ء میں بھارت کے شہر ’’چنئی‘‘ میں 1000 کلومیٹر لمبی سڑک پلاسٹک کے کچرے سے ہی بنائی گئی۔ ویت نام، جنوبی افریقہ، سوئٹزرلینڈ اور کچھ دوسرے ممالک اس سے قبل پلاسٹک کے کچرے سے سڑکیں بنا چکے ہیں۔
پلاسٹک کا کچرا آج دنیا کو درپیش اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ پلاسٹک کا کچرا، جیسے شاپنگ بیگ اور پلاسٹک کی بوتلیں جن کو گلنے میں 20 سے 500 سال لگتے ہیں۔اس وقت بھی دنیا بھر میں پلاسٹک کے کچرے کا ایک چھوٹا سا حصہ ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ باقی کو لینڈ فلز اور سمندروں میں پھینک دیا جاتا ہے، جس سے انسانوں اور جانوروں کی زندگی پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
لاہور کے رہنے والے یا رنگ روڈ پر سفر کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ جب وہ محمود بوٹی کے قریب سے گزرتے ہیں، تو اُنھیں اپنا ناک اور منھ بند رکھنا پڑتا ہے۔ یہ بدبو اسی کچرے سے آتی ہے، جس سے دنیا بجلی اور سڑکیں بنا رہی ہے۔
نگران وزیرِ اعلا محسن نقوی نے اس حوالے سے پنجاب میں پلاسٹک کی سڑک کا جو افتتاح کیا ہے، اُسے پورے پنجاب تک پھیلا دیا جائے۔ یوں ایک تو شہروں سے کچرا ختم ہو جائے گا، اور دوسرا یہ سڑکیں عام سڑک سے پائیدار ہوتی ہیں، جو عام سڑک سے تین گنا زیادہ دیر تک چلتی ہیں۔
ان سڑکوں کی ساخت شگافوں اور گڑھوں کے خطرے کو ختم کرتی اور دیکھ بھال کی ضرورت کوبھی کم کرتی ہے۔ اس کا کھوکھلا ڈیزائن پائپوں اور کیبلز کے لیے ’’بیلٹ اِن‘‘ حل فراہم کرتا ہے۔
ان سڑکوں کی ساخت نہ صرف اضافی پانی کو جلدنکال باہر کرتی ہے، بلکہ سڑک کے شور کو جذب کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ اب لاہور میں جم خانہ مال روڈسے جیل روڈ تک پلاسٹک سڑک تیار ہے، جس کا ایک ماہ تک جائزہ لیا جائے گا، جس کے بعد پھرمال روڈ کو بھی پلاسٹک روڈ میں تبدیل کیا جائے گا۔
پلاسٹک روڈ بارش کے پانی سے جلد ٹوٹے گی نہیں، بلکہ پلاسٹک روڈ کم از کم 10 سال تک چلتی ہے۔
پلاسٹک روڈ بارش کے پانی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوتی۔ اس پر لاگت بہت کم آتی ہے۔ ابھی جو ظفر علی روڈ بنائی گئی ہے، اس کی تعمیر پر 6 کروڑ کی جگہ 2 کروڑ روپے لاگت آئی ہے۔
جو پلاسٹک ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا تھا، اُسے اِدھر استعمال کیا گیا ہے۔ پلاسٹک روڈ کی تعمیر میں استعمال شدہ شاپرز اور دیگر پلاسٹک استعمال ہوتا ہے۔ پلاسٹک روڈ اسفالٹ روڈ کے مقابلے میں دیرپا اور کم لاگت سے تیار ہوتی ہے۔ پلاسٹک روڈ کی دیکھ بھال کی بھی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ یہ بارش کے پانی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی نہیں ہوتی۔
اس کے مقابلے میں ہماری دوسری سڑکیں زیادہ لاگت سے تعمیر ہوتی ہیں اور پھر بارشوں کے موسم میں بعض سڑکیں تو پوری کی پوری پانی اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔
لاہور جیسے شہر میں سڑکوں پر بڑے بڑے کھڈے معمول کی بات ہیں اور دیہاتوں کی سڑکوں کا تو بہت ہی برا حشر ہوا ہوتا ہے۔ اوپر سے نگران وزیرِ اعلا نے پنجاب کے دیہات کو جگمگ کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔ یہ منصوبے تب ہی کامیاب ہوں گے جب دیہاتوں تک سڑکیں پائیدار بنی ہوں اور لوگوں کا آنا جانا آسان ہو۔ ہمارے دیہاتوں میں آج تک ہوتا یہ آیا ہے کہ وہاں کے سیاسی لوگ مقامی انتظامیہ سے مل کر نئی تعمیر ہونے والی سڑکوں کا پیسہ ہضم کر رہے ہیں۔
بعض دیہاتوں میں سڑک کا نشان تو بنا دیا جاتا تھا، لیکن سڑک نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ لوگ مٹی اور دھول میں سفر کرتے تھے اور اب بھی کررہے ہیں۔ کسی جگہ ٹھیکے دار مال بنا کر بھاگ گیا، تو کسی جگہ سب نے ملی بھگت سے پوری کی پوری سڑک ہی ہضم کرلی، بلکہ پچھلے ادوار میں تو ایسا بھی ہوتا رہا کہ نقشے میں ہی سڑکیں تیار ہوتی رہیں۔ ایک بار نہیں بلکہ ہر سال اور کئی سال تک کاغذوں میں ہی ایسا ہوتا رہا۔ ہمارے محکموں (روڈز، ہائی وے، سی این ڈبلیو، ایل ڈی اے اور مقامی ضلعی اداروں) میں بیٹھا ہوا مافیا بہت بھاری ہے۔ کسی نہ کسی طرح عہدے پر لگ کر ہر ٹھیکے پر کمیشن وصول کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان اداروں کے چپڑاسی سے لے کر اوپر تک ٹھیکوں سے آنے والے کمیشن کا حصہ ہوتا ہے۔ اس کمیشن کے بغیر نہ تو کسی ٹھیکے دار کو ٹھیکا ملتا ہے اور نہ کسی ٹھیکے دار کا بل پاس ہوتا ہے۔ بل کلرک، ہیڈ کلرک، اکاؤنٹینٹ، اوورسیئر، سب انجینئر، ایس ڈی او اور ایکسین اربوں روپے کمیشن کی مد میں وصول کرچکے ہیں۔
یہ صرف ایک شہر میں نہیں ہوتا، بلکہ پورے پاکستان میں یہی اصول اور قانون لاگو ہے۔ ہمارے سیاست دان اپنے فنڈز میں سے ان ٹھیکے داروں کو ٹھیکا دلواتے ہیں، جو انھیں ایڈوانس میں متعلقہ ٹھیکے کا کمیشن دے دے۔
اگر دیکھا جائے، تو ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ کمیشن خور مافیا ہے، جب تک ان کے خلاف سخت ایکشن نہ لیا جائے، تو دیہات جگ مگ کرسکیں گے، نہ شہر ترقی ہی کر پائیں گے۔یہی کمیشن خور مافیا ایک طرح سے کینسر کی طرح ہماری جڑوں کو کھوکھلا کرتا جا رہاہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔