خبر یہ ہے کہ موجودہ مالی سال میں پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں بڑی کمی ہوگئی ہے۔
اَب آپ سوال کریں گے کہ یہ کس طرح ممکن ہے؟ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں رواں سال 15 فی صد اضافہ کیا گیا تھا۔ پٹرول اور ڈیزل کی فروخت پر کمیشن میں اضافہ ہوگیا تھا۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اچھا خاصا اضافہ کیا گیا۔ مہنگائی کے تناسب سے مزدور طبقے نے اپنی مزدوری بڑھا دی۔ درزی حضرات نے کپڑوں کی سلائی میں قریباً 20 فی صد اضافہ کر دیا۔ ڈاکٹروں نے پرائیویٹ چیک اَپ کے لیے آنے والوں سے 20 سے 30 فی صد اضافے کے ساتھ فیس چارج کی۔ کپڑے کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ کرکے مل مالکان اور دکان داروں نے گاہکوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ سبزیوں کے ریٹ کئی گنا بڑھ گئے۔ پھل متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی دور ہوگئے۔ اس کے باوجود بھی یہ کہا جائے کہ ہماری فی کس آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے، تو حیرت کی بات ہے ناں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
واقعی یہ حیرت انگیز حقیقت وقوع پذیر ہوچکی ہے۔ گذشتہ مالی سال 22-2021ء کے دوران میں پاکستانیوں کی فی کس آمدنی 1766 ڈالر سالانہ تھی، جو رواں مالی سال 23-2022ء کے دوران میں کم ہوکر 1568 ڈالر سالانہ تک آگئی ہے۔ یعنی ہماری فی کس آمدنی میں ایک سال کے دوران میں 11.38 فی صد کمی آچکی ہے۔ حالاں کہ روپوں میں ہماری آمدنی میں فی کس 15 سے 20 فی صد اضافہ ہوا ہے، مگر ڈالر کی پرواز اور روپے کی قدر میں گراوٹ نے ہماری آمدنی میں نمایاں کمی کی ہے۔ اس کمی کے سبب عام آدمی تو کیا، متوسط طبقے کی قوتِ خرید میں بھی نمایاں کمی ہوگئی ہے۔
ہمارے ہاں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہے۔ ایک سال کے عرصے میں ڈالر قریباً سو روپے مہنگا ہوچکا ہے۔ ہمارے ماہرِ معاشیات وزیرِ خزانہ جو بزعمِ خویش معیشت کے چمپئن ہیں، اپنے تمام تر بلند بانگ دعوؤں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ انھوں نے آتے ہی سابق وزیرِ خزانہ جناب مفتاح اسماعیل پر طنز کے تیر برساتے ہوئے انھیں ناکام اور نااہل وزیرِ خزانہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ملکی معیشت کو بہتری کی طرف گام زن کرنے کا بڑا دعوا کیا تھا۔ انھوں نے تو یہ بھی فرمایا تھا کہ ڈالر کی اصل قدر 200 روپے ہے اور وہ ڈالر کو 170 روپے تک لے کر آئیں گے۔ قوم کو اُن کے دعوؤں اور وعدوں پر یقین تھا، مگر ایک سال میں ہی ڈالر قریباً 50 فی صد مہنگا ہوگیا ہے۔ اس وقت ڈالر ریٹ 308 روپے تک جا پہنچا ہے۔ جناب اسحاق ڈار سے ان کے دعوؤں کے بارے میں سوال کیا جائے، تو وہ غصہ بھرے لہجے میں اپنے آپ کو کامیاب وزیرِ خزانہ ثابت کرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی ناکامی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔حالاں کہ انھوں نے آئی ایم ایف کے سامنے اس بری طرح خود کو سرنڈر کیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے آئی ایم ایف کی فرمایشیں پوری کرتے کرتے عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے کے ساتھ ان کی ہڈیوں سے گوشت تک اُتار لیا ہے۔ پھر بھی وہ آئی ایم ایف کو راضی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ قوم کو جھوٹی تسلیاں اور خوش خبریاں دے دے کر خود پر اعتماد اور اپنا اعتبار کھو بیٹھے ہیں۔ بین الاقوامی اور ملکی حالات جو بھی ہوں، حکومت میں بیٹھے افراد کو ان حالات سے نبٹنا ہوتا ہے۔ بری پرفارمنس کو بہانہ بنا کر پیش کرنا ’’جسٹی فائیڈ‘‘ نہیں ہوتا۔ عوام کو کارکردگی چاہیے۔ اگر آپ کارکردگی نہیں دکھا پا رہے، تو منظر سے ہٹ جائیے۔ کسی اور کو موقع دیجیے۔ اس طرح عہدے سے چمٹے رہنا مناسب نہیں۔
قتل کے ایک ملزم کے ورثا نے بہت مہنگا وکیل کیا، تاکہ ان کا بندہ رہا ہوسکے۔ وکیل نے 50 لاکھ روپے فیس وصول کی اور کیس لڑنا شروع کر دیا۔ ایک سال بعد کیس کا فیصلہ ہوگیا۔ ملزم کے ورثا عدالت سے باہر نکلے، تو ایک جونیئر وکیل نے پوچھا کہ کیس کا کیا فیصلہ ہوا؟ ورثا نے بتایا کہ ہمارے بندے کو سزائے موت ہو گئی۔ یہ سن کر اُس جونیئر وکیل نے کہا ’’پچاس لاکھ خرچ کرنے کی کیا ضروت تھی، میں یہ کام دس ہزار روپے میں کروا دیتا!‘‘
اگر اسحاق ڈار صاحب نے یہی پرفارمنس دکھانی تھی، تو یہ کام مفتاح اسماعیل صاحب بھی کرسکتے تھے۔ تشویش تو اس بات پر بھی ہے کہ پتا چلا ہے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ستمبر کے آخر تک دو اَرب ڈالر کی خطرناک سطح پر آ جائیں گے۔ ہم تیزی سے ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اگر معاشی پالیسیوں میں استحکام نہ لایا گیا، تو تجربہ کار ٹیم کچھ بھی نہ کر سکے گی۔ کب تک دوست ممالک کے ساتھ ہم کمبل بن کر چمٹے رہیں گے۔ اگر پالیسیاں درست نہ کی گئیں، تو ایک دن ایسا آئے گا کہ مدد کرنے والے دوست ممالک بھی ہم سے جان چھڑانے لگیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کے 13 ماہ مشکل ترین دور رہے ہیں۔ عمران خان نے ملک اور ملکی معیشت کو کم زور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، مگر اب عمران خان بے دست و پا ہو کر دفاعی پوزیشن پر چلے گئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرے۔ کرپشن کا خاتمہ اس کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ وفاقی کابینہ جس کا حجم 85 کے قریب ہے، اسے مختصر کیا جائے۔ لاکھوں روپے کے عوض مختلف محکموں کے سربراہان کے پے پیکیجز پر نظرِ ثانی کی جائے۔ حکومت کے غیرضروری اخراجات کم کیے جائیں۔ کارکردگی میں اخلاص نظر آئے گا، تو عوام بھی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں گے۔ اپنے ملک کو ڈوبتا دیکھ کر بھی اس سے آنکھیں پھیر کر طیب اردوان کو کروڑوں ڈالر تارک وطن کوئی پاکستانی نہیں دے گا، بلکہ اپنے وطن کی مدد کرے گا۔
سیاسی بحران ختم ہوچکا ہے۔ اب ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا پرچم تھام کر آگے بڑھنا ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔