نوجوان سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ بہت خوشی کی بات ہے۔ کیوں کہ اپنے ہاں گھر، سماج اور ریاست کا ہر ادارہ انھیں غیر سیاسی بنانے پر تلا ہوا ہے، لیکن یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست محض ’’فُلاں زندہ باد، فُلاں مردہ باد‘‘ یا ’’فُلاں نے آج یہ بیان دیا، فُلاں نے وہ بیان دیا‘‘ جیسے سطحی مکالموں سے بہت آگے کی چیز ہے۔ اس میں نہ صرف سیاسیات کے بنیادی رموز سمجھنے پڑتے ہیں، بلکہ اپنے خول سے نکل کر عالمی سطح پر چلنے والے سیاسی ٹرینڈز سے بھی آگاہ رہنا پڑتا ہے…… ورنہ آپ کا سیاسی شعور بہت معمولی رہ جاتا ہے۔
ظہیر الاسلام شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zaheer/
جیسا کہ آپ میں سے ڈھیر ساروں کو پتا ہوگا کہ عالمی سطح پر جمہوریت کو کافی خطرات لاحق ہیں اور اس کی جگہ مطلق العنانیت لے رہی ہے۔ اس کتاب کا موضوع بھی یہی ہے۔ کیسے اور کیوں اپنی جمہوری اقدار پر غرور کرنے والے برطانیہ اور امریکہ میں بورس جونسن اور ٹرمپ جیسے غیر جمہوری رجحان رکھنے والے لوگ نہ صرف اقتدار میں آئے، بلکہ آیندہ بھی اپنے یا اپنے جیسوں کے انتخاب کے لیے راستہ ہم وار کیا اور کیسے چین اور روس جیسے عالمی اور مزید طاقت ور بنتی غیر جمہوری ریاستیں بین الاقوامی سیاست پر نظر انداز ہو رہی ہیں؟ ’’پاپولزم‘‘ (Populism) اور ’’پرسنالٹی کلٹ‘‘ (Personality Cult) کیا ہے، یہ کیسے وجود میں آتے ہیں اور ان کے کیا کیا ہتھکنڈے ہوتے ہیں؟ نیز انڈیا میں مودی، ترکی میں اردگان، چین میں شی جن پنگ، امریکہ میں ٹرمپ، برطانیہ میں بوریس، جرمنی میں اوربن، اسرائیل میں بنجامن نتن یاہو، سعودی عرب میں محمد بن سلمان، روس میں پوٹن اور اس طرح دیگر ممالک میں دوسرے سیاست دانوں نے کس طرح اپنا ’’کلٹ‘‘ بنا کر غیر جمہوری سیاست کو پروان چڑھایا اور مستقبل پر اس کے کیا اثرات ہوں گے…… یہ سب اس کتاب کا حصہ ہے۔ پاپولسٹ لیڈروں کی چند خصوصیات بیان کرتا چلوں:
1:۔ یہ عوام کے نماہندہ ہونے کا دعوا کرتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ ’’ایلیٹ‘‘ اور ’’انٹیلیکچول‘‘ طبقات ان پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔
2:۔ انھیں عوام کے حالات کو تبدیل کرنے کی بجائے عوام کے ابتر حالات اور ان کے جذبات سے کھیلنے میں مہارت ہوتی ہے۔
3:۔ انھیں جمہوری ادارے جیسے عدلیہ، الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ وغیرہ پسند نہیں ہوتے۔ یہ ان کی آزادی کے بالکل قائل نہیں ہوتے اور انھیں اپنی مٹھی میں کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
4:۔ یہ انتہائی پیچیدہ مسائل کا بہت سادہ اور مضحکہ خیز حل پیش کرتے ہیں، جیسے ہمارے ہاں لوگوں کو بتایا گیا کہ آپ کے حالات اس لیے ابتر ہیں کہ فُلاں اور فُلاں چور ہیں اور ملک کا پیسا لوٹ کر باہر لے گئے ہیں۔ واپس لائیں گے، تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
5:۔ یہ آزاد میڈیا بالکل پسند نہیں کرتے۔ تنقید کرنے والے صحافیوں کو قید یا قتل کر دینا اور میڈیا پر طرح طرح کی قدغنیں لگانا ان کا متفقہ وطیرہ ہے۔
6:۔ یہ اپوزیشن کے لیڈروں کو طرح طرح کے جعلی کیسوں میں پکڑوا کر یا اگر چین اور روس جیسا نظام ہو، تو انھیں قتل کر کے، اپنے اقتدار کو دوام بخشتے ہیں۔
7:۔ یہ آئے دن نت نئی سازشیں تخلیق کرتے ہیں۔ خاص طور پر جب الیکشن میں ناکام ہوتے ہیں، تو نتائج ماننے سے فوراً انکار کرلیتے ہیں اور اگر اپنے دورِ حکومت میں کچھ نہ کر پائیں، تو الزام دوسروں پر دھر لیتے ہیں۔
8:۔ زیادہ تر یہ قوم پرست ہونے کے ساتھ ساتھ ماضی پرست بھی ہوتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ ہم نے ماضی کا فُلاں والا دور دوبارہ لانا ہے جیسے ٹرمپ کہتا ہے کہ ’’ہم امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں گے۔‘‘ اس طرح مودی مسلمانوں اور بدھ مت سے قبل والے ہندو، ہندوستان کی بات کرتا ہے، اردگان سلطنتِ عثمانیہ کی یاد دلاتا ہے اور ادھر اپنے ہاں عمران خان ریاست مدینہ کا راگ الاپتا ہے۔
9:۔ اگر یہ بائیں بازو سے ہیں، تو یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ، اینٹی ایلیٹ، اینٹی گلوبلائزیشن ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی برابری کے بھی علم بردار ہوتے ہیں۔
10:۔ ان کو ووٹ دینے والے اکثر لوگ بڑے شہروں اور اعلا تعلیم یافتہ افراد کی بجائے کم پڑھے لکھے اور ملک کے مضافات میں رہنے والے لوگ ہوتے ہیں، جنھیں ایک ایسے طاقت ور مسیحا کی تلاش ہوتی ہے، جو آتے ہی ان کے تمام مسائل حل کرلے۔
11:۔ ان کے آئیڈیل سیاست دان جمہوری نہیں، بلکہ اپنے جیسے پاپولسٹ ہوتے ہیں۔
12:۔ یہ اپنی مرضی کے خلاف ہر خبر کو "Fake News” کہتے ہیں، جب کہ خود سوشل میڈیا پر فیک اکاؤنٹس کے ذریعے اپنے حق میں پروپیگنڈا کرواتے ہیں۔
اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ مجھے ذاتی طور پر بہت دلچسپ اور معلوماتی لگی۔ باہر کے بارے میں علم ہوا، تو اپنے ملک کی سیاست بھی اچھی طرح سمجھ آگئی۔ گڈین ریکمن ایک صحافی ہیں۔ جن کے بارے میں لکھا ہے، اُن کے ممالک کا کئی بار دورہ کر چکے ہیں۔ کچھ سے ملے بھی ہیں۔ عالمی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور 20 سال سے زائد تجربے کے بعد یہ کتاب لکھی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔