1969ء میں ادغامِ ریاست کے بعد بھی چغرزئی کا پورا علاقہ کئی سال تک سڑک سے محروم رہا۔ ریاستی دور میں بدال تک ایک کچی سڑک بنی ہوئی تھی، جو اُسی دور میں تعمیر شدہ سٹیٹ ڈسپنسری بدال کے قریب ختم ہوجاتی تھی۔ آگے چغرزئ کے مختلف دروں اور دیہاتوں تک اشیائے ضروریہ کی ترسیل خچروں کے ذریعے ہوتی تھی۔ خچروں کے یہ راستے (میول ٹریکس) صدیوں پرانے تھے۔ یہ کبھی پہاڑ کی اُترائی میں اور کبھی خوڑ سے گزرتے تھے۔ بدال سے گلونو بوڑئی تک کا راستہ پہاڑی تھا۔ یہاں سے ایک ٹریک شمنال کی طرف جاتا تھا۔ دوسرا کافی دور تک خوڑ میں جاکر پھر بٹاڑا کے قریب دو حصوں میں بٹ جاتا۔ ایک پر آپ گنبد وغیرہ سے ہوکر گلبانڈئی سر قلعہ اور آگے مارتونگ تک جاسکتے تھے۔ دوسرا پاندھیڑ کے مقام پر دو مخالف اطراف کے دروں یعنی چلندرئی شنگرئی وغیرہ اور پیتاو کا رُخ کرتا تھا۔ ان خچروں کے قافلوں کی سہولت کے لیے بٹاڑا اور پاندھیڑ کے مقام پر پرانے طرز کے بڑی صحن والے سرائے بنے ہوئے تھے۔ جہاں مسافروں کو کھانے کے علاوہ خچروں کو چارہ بھی ملتا تھا۔ ان مقامات سے آگے قافلوں کا انحصار راستے میں آنے والے دیہاتوں کے رہنے والوں کی روایتی مہمان نوازی پر تھا۔ انھی ٹریکس پر بعد میں سڑکوں کی تعمیر ہوئی۔ پھر اچانک ان دورافتادہ اور جدید سہولتوں سے محروم علاقوں کی قسمت جاگ اُٹھی۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
بونیر کے اکثر علاقوں چملہ امازی خدوخیل اور چغرزئی وغیرہ میں افیون کی کاشت بہ کثرت کی جاتی تھی۔ یہ ایک نقد آور فصل تھی۔ اس سے ہزاروں خاندانوں کی روزی روٹی وابستہ تھی۔ افیون کی ’’سب پراڈکٹ‘‘ ہیروئن تھی، جس کی فیکٹریاں مختلف ممالک میں تھیں۔ ان کو خام مال (افیون) افغانستان، گدون امازئی اور چغرزئی سے فراہم کیا جاتا تھا۔
جب مغرب کے نوجوان نسل میں اس کا استعمال بڑھنے لگا، تووہاں کی حکومتوں نے اس زہر کے منبع معلوم کرنے اور روک تھام کا فیصلہ کیا۔لوگوں کو افیوں کی کاشت سے روکنے کے لیے کئی ترغیبات کے علاوہ بڑے بڑے پراجیکٹ شروع کروائے۔ ان ترغیبات میں رسل و رسائل کی آسانیاں فراہم کرنا بھی شامل تھا۔ اسی پروگرام کے تحت یوروپین یونین نے ’’سی ای سی‘‘ کے ذریعے بونیر میں کئی ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا۔ چغرزئی میں بھی کئی سکیمیں شروع کی گئیں۔پہلے فیز میں بدال سے بٹاڑہ تک کام کا آغاز ہوا، تو ہم ہفتے میں کم از کم ایک بار ضرور وہاں جایا کرتے۔ اس آمد و رفت کے دوران میں ہمارا تعارف چغرزئی کے خوڑ سے ہوا۔ یہ ایک نہایت شفاف اور تیز رفتار پہاڑی ندی ہے۔ یہ بہت لذیذ مچھلی کا گھر ہے۔ ہم کبھی کبھی بدال کے قریب یا گلونو بوڑئی کے سامنے والے خوڑ (ندی) میں پکنک منانے کے لیے جاتے تھے۔ ہمارے اُس وقت کے ایس ڈی اُو جمیل الرحمان تھے۔ ڈگر کے اسسٹنٹ کمشنر محمد شعیب خان اور ڈگر کالج کے پروفیسر قاضی عبدالواسع بھی ہمارے پروگراموں کے مستقل ساتھی ہوا کرتے تھے۔ ہم مچھلیاں بھی پکڑتے تھے اور دنبے بھی ذبح کرتے تھے۔ ان آؤٹنگز کی کئی خوش گوار یادیں آج بھی دل کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں۔
اکثر ساتھی مچھلیوں ہی پر اکتفا کرتے۔ جب مچھلی نہ ملتی، تو پھر گوشت پر دھینگا مشتی ہوتی۔ اس کا حل قاضی صاحب نے یہ نکالا کہ کہ دو دو آدمیوں کو ایک پلیٹ میں گوشت دیتے۔ اے سی شعیب کا پارٹنر ان کا پراسیکوٹنگ انسپکٹر ظاہر شاہ خان تھا۔ اے سی اُس کو چند تکے تو کھلاتا، پھر باقی پلیٹ میں تھوک کر بھاگ جاتا۔ ظاہر شاہ اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے کہتا: ’’آپ اس پر پیشاب بھی کریں، مَیں چھوڑنے والا نہیں!‘‘
مچھلیاں تلنے کا کام بھی قاضی واسع صاحب نے اپنے ذمے لیا ہواتھا۔ وہ مچھلیوں کے لیے دہی میں ایک خاص قسم کا مسالا تیار کرتا۔ پھر اُس میں آدھے گھنٹے تک مچھلیوں کے قتلے رکھتا۔ بعد ازاں اُن قتلوں کو سرسوں کے تیل میں تلتا۔ اتنی لذیذ تلی ہوئی مچھلی ہمیں پھر کبھی نصیب نہ ہوسکی۔
کیا بے فکری اور خوشیوں بھرے دن تھے، جو پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ اُن محفلوں کے اکثر ساتھی ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے ہیں۔ صرف ان کی یادیں باقی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔