تحریر: اختر حسین (پرنسپل گورنمنٹ ہائی سکول اسلام پور)
23 اگست 2023ء کو حکومتِ خیبر پختونخوا کے 8 بورڈز نے بیک وقت میٹرک کے نتائج کا اعلان کردیا۔
بدقسمتی سے سرکاری سکولوں کے نتائج پرائیویٹ سکولوں کے مقابلے میں کم زور ہیں۔ خاص طور پر جماعت نہم کے نتائج انتہائی مایوس کن ہیں۔ سوشل میڈیا پر سرکاری سکولوں کے ہیڈ ماسٹر،پرنسپل اور اساتذہ کرام پر تنقید کی بوچھاڑکی جارہی ہے۔
قارئین! یہ بات ٹھیک ہے کہ خراب نتائج کی ذمے داری کسی حد تک سکول انتظامیہ اور اساتذہ پر عائد کی جاسکتی ہے، لیکن مکمل طور پر یہ ذمے داری ان پر عائد کرنا قرینِ انصاف نہیں۔
ذیل میں اُن عناصر کا ذکر کیا جارہا ہے جن کی وجہ سے سرکاری سکولوں کے نتائج خراب ہورہے ہیں:
1:۔ جماعتِ اول تا ہشتم امتحان کا فرسودہ نظام اور فری پروموشن پالیسی۔
2:۔ اساتذۂ کرام کا روایتی طریقہ ہائے تدریس کا استعمال۔
3:۔ ’’ایس ایل اُو‘‘ بیسڈ پرچوں سے طلبہ اوراساتذہ کی عدم آگاہی اور انجانا خوف۔
4:۔ غیر منطقی داخلہ پالیسی (صرف سکول لیونگ سرٹیفکیٹ کی بنیاد پرداخلہ ۔)
5:۔ مانیٹرنگ سسٹم میں امتحان سے متعلقہ انڈیکیٹر کی عدم موجودگی۔
6:۔ طلبہ کی غربت (سکول کے بعد روزگار یا کاروبار میں مصروفیت۔)
7:۔ طلبہ کی تعلیم میں والدین کی عدم دلچسپی۔
8:۔ امتحان میں شمولیت کے لیے طلبہ کو حاضری میں رعایت(امتحان میں شرکت کے لیے کم از کم 80 فی صد حاضری لازمی ہونی چاہیے اور اس میں کسی قسم رعایت نہیں ہونی چاہیے۔)
9:۔ کورونا کی وجہ سے طلبہ کی تعلیمی ماحول سے دوری اور فری پروموشن پالیسی۔
10:۔ امتحانی ہالوں میں ڈیوٹی کی انجام دہی میں عدم مساوات۔
11:۔ ایک ایگزامنر کو کثیر تعداد میں مارکنگ کے لیے پرچوں کی فراہمی۔
12:۔ کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ کا ناقص طریقہ(کم از کم پندرہ فی صد غلطیاں کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ میں ہوتی ہیں۔)
13:۔ سرکاری سکولوں میں گرمائی اور سرمائی زون کی لمبی تعطیلات اور پھر بعد از تعطیلات فوری امتحانات۔
14:۔ طلبہ کو نصابی کتب کی فراہمی میں تاخیر۔
15:۔ اساتذۂ کرام کی غیر تدریسی سرگرمیوں میں ڈیوٹی۔ مثلاً: پولیو، امتحانات، الیکشن، کتب کی فراہمی، ٹریننگ وعلی ہذا القیاس۔
قارئین! درجِ بالا عناصر کی وجہ سے سرکاری سکولوں کے نتائج کم زور اور قابلِ تنقید ہیں۔
اگر ہم صحیح معنوں میں سرکاری سکولوں کو مثالی بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں سرکاری اساتذہ کو صرف تدریسی سرگرمیوں تک محدود رکھنا پڑے گا۔
سرکاری مڈل اور ہائی سکول میں داخلے کے لیے کم از کم پرائمری لیول کا ٹیسٹ رکھنا پڑے گا، تاکہ طلبہ کی جانچ کی جاسکے کہ آیا وہ لکھنا اور پڑھنا جانتے بھی ہیں یا نہیں۔
ہمیں انٹرنل امتحانات کو بہتر کرنا پڑیں گے اور باقاعدہ ایک فکس شیڈول کے مطابق سہ ماہی ،شش ماہی ، نوماہی اور سالانہ امتحانات منعقد کرنا ہوں گے۔ سکول کے سربراہان کو سکول کے داخلہ پالیسی بنانے کے اختیارات دینا ہوں گے اور پاس مارکس کم از کم چالیس پرسینٹ رکھنا پڑیں گے۔
قارئین! سب سے اہم بات، جملہ اساتذۂ کرام کو تدریس کے جدید طریقوں سے آگاہی حاصل کرنا ہوگی۔ ’’بلوم ٹکسانومی‘‘ کی روح کو سمجھنا ہوگا۔ تب کہیں جاکر ہم اچھے نتائج کی توقع رکھ سکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔