تحریر: اسلم انصاری 
میرے عزیزو!
مجھے محبت سے تکنے والو!
مجھے عقیدت سے سننے والو!
میرے شکستہ حروف سے اپنی من کی دنیا بسانے والو!
میرے الم آفریں تکلم سے انبساطِ تمام کی لا زوال شمعیں جلانے والو!
بدن کو تحلیل کرنے والی ریاضتوں پر عبور پائے ہوئے…… سُکھوں کو تجے ہوئے بے مثال لوگو……!
حیات کی رمزِ آخریں کو سمجھنے والے عزیز بچو……!
مَیں بجھ رہا ہوں……!
مَیں جل چکا ہوں……!
میرے شعورِ حیات کا شعلۂ جہاں تاب بجھنے والا ہے……!
میرے کرموں کی آخری موج میری سانسوں میں گھل چکی ہے……!
مَیں اپنے ہونے کی آخری حد پر آگیا ہوں……!
تو سُن رہے ہو، میرے عزیزو……!
مَیں جا رہا ہوں……!
مَیں اپنے ہونے کا داغ آخر کو دھو چکا ہوں……!
کہ جتنا رونا تھا رو چکا ہوں……!
نہ اب مجھے انت کی خبرہے، نہ تو کسی چیز پر نظر ہے……!
مَیں اب تو بس اتنا جانتا ہوں کہ ہستی کے وجودِ کامل کے جہلِ مطلق کے (جہلِ مطلق کہ عِلمِ مطلق ہے)
جہلِ مطلق کے بحرِبے موج سے ملوں گا تو انت ہو گا…… اِس اِلتباسِ حیات کا…… جو تمام دُکھ ہے……!
مَیں دُکھ اُٹھا کر میرے عزیزو…… مَیں دُکھ اُٹھا کر…… حیات کی رمزِ آخریں کو سمجھ گیا ہوں……!
تُمام دُکھ ہے……!
وجود دُکھ ہے……!
وجود کی نمود د دُکھ ہے……!
حیات دُکھ ہے…… ممات دُکھ ہے……!
یہ ساری موہوم و بے نشاں کائنات دُکھ ہے……!
حیات کیا ہے…… اِک اِلتزامِ وجود ہے…… اور وجود کا اِلتزام دُکھ ہے ……!
یہ زندہ رہنے کا …… باقی رہنے کا شوق…… یہ اہتمام دُکھ ہے……!
جدائی تو خیر آپ دُکھ ہے…… ملاپ بھی دُکھ ہے…… کہ ملنے والے جدائی کی رات میں ملے ہیں……!
یہ رات دُکھ ہے …… سکوت دُکھ ہے…… کہ اس کے کربِ عظیم کو کون سہ سکا ہے……!
کلام دُکھ ہے کہ کون دُنیا میں کَہ سکا ہے…… جو ماورا کلام دُکھ ہے ……!
یہ ہونا دُکھ ہے…… نہ ہونا دُکھ ہے …… ثبات دُکھ ہے…… دوام دُکھ ہے…… میرے عزیزو …… تمام دُکھ ہے……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔