اگر آم پھلوں کا بادشاہ ہے، تو ہم ساگ کو سبزیوں کا بادشاہ کَہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ جب ساگ کا موسم آتا ہے، تو پھر ہر گھر میں ساگ ہی کی حکم رانی ہوتی ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ ہیر اپنے رانجھے کے لیے بیلے میں چُوری لے کر جایا کرتی تھی، مگر وہ ماضیِ بعید کی بات ہے۔ ماضیِ قریب یعنی 50، 60 سال سے ساگ نے چُوری کو مات دے دی ہے۔ ساگ کو یہ عزت دلوانے میں گلوکارہ نورجہاں اور اداکارہ نغمہ کا مرکزی کردار ہے:
گندلاں دا ساگ تے مکھن مکئی
رِنّھ کے لیائی آں میں سجناں دے لئی
یعنی گندلوں کا ساگ اپنے محبوب کے لیے پکا کر لائی ہوں۔ ساتھ مکھن کا پیڑا اور مکئی کی روٹی بھی لائی ہوں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ملکۂ ترنم نورجہاں کی آواز میں گایا یہ خوب صورت نغمہ ہمارے دیہاتی کلچر کا عکاس ہے، جسے پردۂ سکرین پر نغمہ بیگم نے اپنی اداؤں اور اداکاری سے امر کر دیا۔
دیہات میں ساگ ہمیشہ سے ہی بڑی رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ مکئی کی روٹی ساتھ ہو، تو ساگ کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے اور اس لطف کو سہ بالا کرنا ہو، تو ساتھ چاٹی کی لسی کو شامل کرلیا جاتا ہے۔ اس مزے کو چہار بالا گرم گرم ساگ پر مکھن کا پیڑا کر دیتا ہے۔
ساگ کی سب سے بڑی خوبی اور فائدہ یہ ہے کہ یہ دیہات میں مفت اور بے تحاشا دست یاب ہوتا ہے۔ شہر والے البتہ زیادہ قدردان ہیں کہ وہ اسے قیمتاً خرید کر اس کی عزت افزائی میں اضافہ کرتے ہیں۔ قریباً 5 ماہ تک یعنی وسطِ ستمبر سے وسطِ فروری تک ساگ کا راج رہتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ساگ کا وقت شروع ہو چکا ہے۔
ساگ ایک سبز رنگ کی ڈھیٹ سی سبزی ہوتا ہے، ڈھیٹ اس طرح کہ جس گھر میں گھس جائے، تو کئی کئی دن پڑا رہتا ہے۔ ساگ ایک طرح سے ماڈرن بھکاری اور بیمہ ایجنٹ ہے، جس سے جان چھڑانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ساگ اور نائیلون میں یہ قدر مشترک ہے کہ جلدی خراب نہیں ہوتے۔ سردیوں کے دو تین ماہ تو ساگ کی حیثیت گھر کے فرد جیسی ہوجاتی ہے۔ ناشتے، لنچ اور ڈنر میں ماؤں کو اتنی فکر اپنے بچوں کی نہیں ہوتی جتنی ساگ کی ہوتی ہے۔ گویا ساگ نہ ہوا ڈاکٹر کی دوائی ہوگئی، جسے صبح، دوپہر اور شام کو بڑی پابندی سے کھانا ہے۔ اکثر گھروں میں ’’ارے ساگ کہاں ہے!‘‘ جیسے جملے تواتر سے سننے کو ملتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ ساگ سال میں 4، 5 ماہ ہر مرد و عورت پر فرض ہے، تو غلط نہ ہوگا اور فرض بھی ایسا کہ جس کی ادائی سب خوشی خوشی کرتے ہیں۔ ورنہ من حیث القوم ہم فرض چھوڑ کر نفلوں کے پیچھے زیادہ بھاگتے ہیں۔
سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے، تو ساگ میں کیلشیم، پوٹاشیم، فولاد، فاسفورس اور آلو کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔اکثر قدامت پسند گھرانوں میں ساگ میں آلو نہ ڈالنا ساگ کی توہین سمجھا جاتا ہے۔ اُن کا بس چلے، تو توہینِ ساگ کا ایکٹ پارلیمنٹ سے منظور کروا کر نافذ کروا دیں…… مگر ماڈرن اور شہری گھرانوں میں آلو کو ساگ کی ہمشیرہ یعنی پالک کے حوالے کرکے ساگ کو گوشت کا ساتھ مہیا کیا جاتا ہے۔ ساگ بھی اپنی اس عزت افزائی پر خوش ہے۔ دیہات میں آلو یا گوشت کا تکلف نہیں کیا جاتا۔ کیوں کہ وہاں ملاوٹ کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے وہاں ’’خالص ساگ‘‘ ہی پکایا جاتا ہے۔ یوں ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آ جاتا ہے…… یعنی ساگ میں ڈالے جانے والے دیگر لوازمات پالک، باتُھو اور پَلّی وغیرہ بھی نہ صرف مفت میں دست یاب ہوتے ہیں، بلکہ ساگ کی لذت میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیتے ہیں۔ لسی دیہات میں عام مل جاتی ہے اور بعض اوقات لسی کے ساتھ مکھن بھی دے دیا جاتا ہے۔
بعض گھروں میں تو اتنے برتن نہیں ہوتے، جتنی اقسام کا وہاں ساگ بنا ہوتا ہے۔ سردیوں میں اکثر فریج کھولیں، تو آلو ساگ، قیمہ ساگ، چکن ساگ، میتھی ساگ، گندلوں کا ساگ اور اسی طرح کے چند مزید ساگوں سے فریج ساگو ساگ ہوا ہوتا ہے۔
ایک غیر معروف دانش ور کا قول ہے کہ ساگ کو چاہے پانچ منٹ پکائیں یا پانچ گھنٹے پکائیں، یہ اپنا رنگ نہیں بدلتا۔ اگر اس کے کچھ مزید کلرز مارکیٹ میں لانچ کر دیے جائیں، تو یہ ایک شاہ کار سبزی ثابت ہوسکتا ہے۔ مختلف فوڈ چینل والوں نے اس سلسلے میں سوچ بچار شروع کردی ہے، تاہم سوچ بچار سے آگے بات نہیں بڑھ سکی۔
فی زمانہ اگر کوئی فرد یہ دعوا کرتا ہے کہ اُس نے کبھی ساگ نہیں کھایا، تو یا تو وہ جھوٹ بول رہا ہے، یا پھر اُس کے رشتہ دار پنجاب میں موجود نہیں۔ ساگ پورے ملک میں مشہور ہے۔ پنجاب ساگ ہی کی وجہ سے مشہور ہے۔
ساگ کی ایک خراب بات یہ ہے کہ ایک دن پکاؤ تو ہفتہ ہفتہ چل جاتا ہے۔ جو لوگ ساگ کو قریب سے جانتے ہیں، اُنھیں اچھی طرح علم ہو گا کہ اسے کھا کھا کر بندہ خراب ہوجائے، تو ہو جائے…… یہ خود کبھی خراب نہیں ہوتا۔ اسے فریج میں نہ بھی رکھیں، تو اپنی ڈھٹائی کو سچ ثابت کرنے کے لیے خراب ہونے کا نام بھی نہیں لیتا۔ البتہ اس کی وجہ سے بہت سوں کے پیٹ خراب ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ جلدی ہضم نہیں ہوتا۔ ساگ سردی کے موسم میں ہوتا ہے، اس لیے اس کی تاثیر گرم ہوتی ہے۔ گرمی کے موسم میں ہوتا، تو شاید اس کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی۔ یہ بلڈ پریشر کو بڑھا دیتا ہے، جو غصے کا سبب بنتا ہے…… جب کہ یار لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ساگ کھانے سے بندے میں دلیری آ جاتی ہے۔
ساگ کی جنم بھومی کہاں ہے، اس کا آغاز کب ہوا، کس طرح اس نے ارتقائی منازل طے کیں اور یہ کہاں کہاں سے ہوتا ہوا کب اور کیسے ہم تک پہنچا؟ اس کے متعلق تاریخ ایسے ہی خاموش ہے جیسے ہم ہر روز اپنے سامنے ساگ کو دیکھ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔