پشتو کی ایک کہاوت ہے: ’’چی رشتیا رازی رازی، دروغو بہ کلی وران کڑی وی۔‘‘ یعنی ’’سچی بات رائج ہونے سے پہلے جھوٹ نے آبادی کا ستیا ناس کیا ہوگا۔‘‘ ایسا ہی کچھ معاملہ ملالہ کے انٹرویو کے ساتھ بھی ہوا۔ سوات سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ لڑکی ملالہ یوسف زئی کا امریکہ کے مشہور میگزین ’’ووگ‘‘ کو انٹرویو دینے کے بعد ایک بار پھر نظریۂ پاکستان اور عالمِ اسلام دونوں کے محافظ پاکستانی، ملالہ پر تنقید کر رہے ہیں۔
ملالہ نے ’’ووگ میگزین‘‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ایسا کیا کہہ دیا جو 22 کروڑ مسلمانوں کا ایمان اچانک خطرے میں پڑگیا؟ خیر، یہ تو انٹرویو پڑھ کر ہی پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ موضوعات کس قدر اہم اور سنگین سمجھے جاتے ہیں!
گذشتہ روز جب یہ موضوع زیرِ بحث تھا، تو معمول کی طرح مَیں نے بھی اپنے اظہارِ رائے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملالہ کے حق میں کچھ الفاظ لکھ دیے۔ اُس کے بعد مجھے ایسے افلاطون دوستوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بننا پڑا جنہوں نے ابھی تک انٹرویو کو سمجھنا تو دور کی بات، پڑھا اور سنا بھی نہیں تھا۔ خیر، ان لوگوں کا ملالہ کے الفاظ سے کیا لینا دینا، ان کو تو ملالہ ہی سے مسئلہ ہے۔
ملالہ پر تنقید کرنے کی اپنی ایک تاریخ ہے اور اس تنقید کے کئی پہلو ہیں۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے سوات آپریشن سے، جب طالبان نے نام نہاد شریعت نافذ کرنے کے چکر میں اہلِ سوات پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنا شروع کر دیا۔ کاروبارِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے اور نقلِ مکانی پر مجبور ہوگئے۔ اسکول، کالج، مدرسے، ہسپتال، مساجد، چوراہے، گلی بازار سب میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی، تب ملالہ وہ واحد 14 سالہ بچی تھی جس نے طالبان کو چیلنج کرکے سامنے آکر مخالفت کی اور برملا کہہ اٹھی کہ ’’اب سکول بند نہیں ہوں گے۔ آپ نے جو بھی کرنا ہے کرلیں، لیکن اسکولز کسی صورت بند نہیں ہوں گے۔‘‘ اس بیان کے بعد ملالہ کو بار بار جان سے مارنے کی دھمکی ملی، لیکن ملالہ کے بقول اس کے پاس دو آپشن تھے، خاموش ہوجاتی اور بعد میں آرام سے قتل ہوجاتی! جب کہ دوسری صورت میں وہ آواز اٹھاتی۔ اس نے دوسری صورت بہتر سمجھی جس کے نتیجے میں اس پر طالبان کی طرف سے حملہ ہوا اور انہیں گولی لگی، جس کو بعد میں آرمی کے ہیلی کاپٹر میں ریسکیو کرکے سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا، اور آج آپ کے سامنے ہے کہ دنیا ملالہ کو کس روپ میں تسلیم کرچکی ہے۔ مختصراً یہ کہ اب ہر وہ شخص، ادارہ، محکمہ جو طالبان کے حق میں ہے، وہ ملالہ کے ہر بیان کے خلاف ہوگا۔ اسی صورت میں ریاستی مشنری چاہے میڈیا ہو یا کوئی ادارہ، وہ ملالہ کے خلاف استعمال کیا جائے گا جو کہ ہو رہا ہے۔
ملالہ پر تنقید کرنے والوں میں ایک خاصی بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ملالہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو ہی ڈراما قرار دے چکے ہیں۔ ان کا جواز یہ ہے کہ کس طرح 14 سالہ لڑکی ڈائری لکھ سکتی ہے؟ تو بھائی اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہمیں کتابوں میں پڑھایا گیا ہے کہ محمد بن قاسم نے 16 سال کی عمر میں ہندوستان پر حملہ کرکے بعد میں فتح کیا تھا، اور اس بات پر یقین بھی کیا جاتا ہے۔ جب کہ دوسری طرف انہیں لوگوں سے ’’14 سالہ بچی ڈائری نہیں لکھ سکتی‘‘ جیسے جملے بھی سننے کو ملتے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ ملالہ پر ہونے والے جان لیوا حملے کو ڈراما یا کسی سازش کا حصہ قرار دے چکے ہوں، ان کے لیے ملالہ کا بیان نہیں بلکہ اصل مسئلہ ’’ملالہ‘‘ ہے۔ اس قسم کی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کا علاج کم از کم میرے پاس موجود نہیں۔
ملالہ پر تنقید کرنے کا ایک پہلو ہماری کم علمی اور عدم برداشت والا رویہ بھی ہے۔ اِس دفعہ ملالہ پر تنقید کرنے والوں میں کافی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ابھی تک ملالہ کو خود نہیں سنا، مگر میڈیا اور اخبارات نے جس طرح ملالہ کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، لوگوں نے من و عن وہی الفاظ آگے پہنچائے، جو کہ خود کم علمی کا ایک بہترین نمونہ ہے۔
آخر میں قارئین کو بتاتا چلوں کہ ملالہ نے اگر ’’پارٹنر شپ‘‘ یا نکاح کے بارے میں کوئی رائے دی ہے، تو وہ اُس کی ذاتی رائے ہے، لہٰذا زیادہ طالب گردی دکھانے کی ضرورت نہیں۔ اُس کی رائے سے اختلاف کیجیے اور آگے بڑھیں۔ اختلافِ رائے سیکھیں، ایک دوسرے کو سُنیں، برداشت کریں اور زندہ ہونے کا ثبوت دیں۔
………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔