بلاول بھٹو زرداری پہلے دن سے کَہ رہے ہیں کہ ’’سب پارٹیوں کو لیول پلینگ فیلڈ دی جائے۔‘‘
قارئین! یہ بات اُس وقت کچھ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی، لیکن اب سبھی کو سمجھ آگئی ہے……!
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
اب تو الیکشن میں کاغذاتِ نام زدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ بھی گزر گئی ہے، لیکن ان چند دنوں میں جو کچھ ہوا، وہ ناقابلِ بیاں ہے۔
پی ٹی آئی کے اُمیدواروں سے کاغذات چھینے گئے اور اُنھیں گرفتار کیا گیا۔یہ کیسے الیکشن ہونے جارہے ہیں، جنھیں پہلے ہی متنازع بنا دیا گیا۔ ابھی تو صرف پی ٹی آئی کو الیکشن سے فارغ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس لیے باقی سبھی پارٹیوں والے خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں، لیکن کل کو جب پیپلز پارٹی سمیت باقی جماعتوں کو بھی مکھی کی طرح نکال باہر پھینکا جائے گا۔ تب پھر کیا صورتِ حال ہوگی…… اس کا اندازہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے سے لگایا جاسکتا ہے۔
اِس وقت ن لیگ کو سرکاری پروٹوکول میں الیکشن لڑوانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ نہیں یقین، تو وہاڑی میں تہمینہ دولتانہ کے کاغذات جمع کروانے کی تصویر ہی ملاحظہ فرمالیں۔ سب کچھ واضح ہوجائے گا۔
ایک اور بات کہ اس طرح کی تصویریں وائرل کرکے پیغام کیا دیا جارہا ہے…… جب کہ دوسری طرف چھینا جھپٹی کا یہ عالم ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی اپیل احاطۂ عدالت میں سول کپڑوں میں ملبوس چار افراد نے چھین لی۔
سابق وزیرِاعلا پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے وکیل عامر سعید راں کو گوجرانوالہ سے مبینہ طور پر نا معلوم افراد نے حراست میں لے لیا، جو چودھری پرویز الٰہی کے کاغذاتِ نام زدگی جمع کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ وہی صاحب ہیں جو10 ماہ قبل بھی لاہور سے لاپتا کیے گئے تھے، جنھیں عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب نے اسلام آباد سے بازیاب کرایا تھا۔
اسی دوران میں چوہدری پرویز الٰہی کی بیوی اور چوہدری مونس الٰہی کی والدہ سے عدالت کے دروازے پر کاغذات چھیننے کی کوشش کی گئی۔
سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کے بیٹے اور سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کو کاغذات جمع نہیں کروانے دیا گیا۔
ملک بھر میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو روکا گیا۔ وہ تو بھلا ہو عدالتوں کا جن کی وجہ سے پولیس کا طوفانِ بدتمیزی کچھ تھم گیا، ورنہ تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ الیکشن سے پہلے ہی حالات خراب کردیے جائیں، تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
دوسری طرف ملکی تاریخ کے طویل ترین نگران وزیرِاعظم فرماتے ہیں کہ کسی کو سیاسی میدان سے بے دخل کرنے کی پالیسی حکومت کی نہیں ہے۔ اگر انتخابی عمل سے کسی کو روکا گیا، تو تحقیقات کریں گے۔
کاکڑ صاحب کا یہ اچھا اور خوب صورت بیان ہے، لیکن اس کی تحقیقات ابھی تک شروع نہیں ہوسکیں۔ کیا الیکشن کے بعد یہ سب کچھ معلوم ہوسکے گا کہ امیدواروں کو کس کے کہنے پر الیکشن سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی…… یا یہ سب محض ایک ٹوپی ڈراما تھا……؟
مگر ضروری ہے کہ انتخابات کی شفافیت، سب کو قانونی طریقے سے حصہ لینے، زبردستی جتوانے، مسلط کرنے سے گریز کی صورت میں مسائل حل ہونے اور جمہوریت کی راہ ہم وار ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ہمیں بھی لیول پلینگ فیلڈ دیں 
انعقاد سے قبل ہی انتخابات متنازع ہوگئے 
ہمارے بھی ہیں ’’راہ نما‘‘ کیسے کیسے
انتخابات میں مداخلت کی وجہ سے عوام کا انتخابات پرسے اعتماد اُٹھتا جا رہا ہے اور ووٹ ڈالنے کی کم ہوتی ہوئی تعداد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دھاندلی، اداروں کی مداخلت، لاڈلے اور ’’سپر لاڈلے‘‘ مسلط کرنے کی وجہ سے عوام ووٹ استعمال کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ حکومت، اداروں اور پارٹیوں کی طرف سے بھی دھاندلی بہر صورت روکنی چاہیے۔ بہ صورتِ دیگر انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں، جب کہ قوم کی تباہی و بربادی، قرضوں اور بدعنوانی کے اصل ذمے داروں کو بچانے، انتخابات میں عوامی نمایندوں کے بجائے لاڈلوں، سپر لاڈلوں کومسلط کرنے سے قوم کا مستقبل مزید تاریک ہوگا…… جب کہ عوام سے اُمید ہے کہ وہ اس بار ملک پر غیروں کے آلۂ کا ر، چینی، گھی، پٹرول سمیت دیگر مافیاؤں اور جرائم پیشہ افراد کو قابض نہیں ہونے دیں گے…… اور اپنے ووٹ کی طاقت سے دیانت دار، صالح، مخلص قیادت کو ووٹ دے کر مافیاؤں اور مسائل سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
طاقت کے زور پر عوام کو زیر کرنا، زُباں بندی، پُرامن جمہوری احتجاج کا حق نہ دینا جمہوری کلچر نہیں…… بلکہ آمرانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔
اس طرح جو کچھ ہم نے اسلام آباد میں اپنے بلوچ بہن بھائیوں کے ساتھ کیا، وہ بھی قابلِ مذمت ہے۔ یاد رکھنے والی بات صرف اتنی سی ہے کہ اقتدارکا سورج ہمیشہ سوا نیزے پر نہیں رہتا۔ چند گھڑیوں میں ڈھلنا شروع ہوکر پھر اندھیری رات میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس لیے عوام کی خدمت کے کام جتنے زیادہ کرسکیں کر جائیں۔
عوام کو بھی ایک بات یادرکھنی چاہیے کہ ہر پارٹی میں مفادات کے لیے جانے والے سیاسی مداریوں کو عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے نہ صرف احتساب کریں، بلکہ اُنھیں مسترد بھی کرتے ہوئے الیکشن کے دن کو لٹیروں کے لیے یومِ حساب بنائیں اور ایسے تمام عناصر کو مسترد کر دیں، جنھوں نے عوام کے حقوق، اختیار اور انصاف پر ڈاکا ڈالا ہو۔
چاروں صوبوں کے عوام اپنے علاقے میں لٹیروں اور مفاد پرستوں کو ایسے نظر انداز کریں، جیسے اقتدار کے دنوں میں اُنھوں نے عوام کو نظر انداز کررکھا ہوتا ہے۔
الیکشن کا دن ہی اصل میں عوام کا دن ہوتا ہے، جس دن وہ اپنا اختیاراستعمال کرتے ہوئے ایسے افراد کو منتخب کریں، جو ان کے دکھ درد کے ساتھی ہوں، باشعور ہوں، پڑھے لکھے ہوں اور محب وطن پاکستانی ہوں…… جب کہ ان کے مقابلے میں ایسے چند خاندان اور شخصیات جو مسلسل لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہوں، سینٹ، اسمبلی اور اداروں پر تسلط جما کر اپنا کاروبار اور بیرونِ ملک اثاثے بناتے رہے ہوں اور یہی مقاصد لے کر وہ اقتدار میں آتے ہوں، عہدے اور منصب کو ذاتیات کے لیے استعمال کرتے ہوں، دھونس اور دھاندلی سے عوام پر دباؤ ڈالتے ہوں، تو عوام کو چاہیے کہ وہ الیکشن والے دن گھروں سے نکلیں اور اپنے اختیار کے حصول کے لیے 8 فروری کو موروثی اور خاندانی سیاست کو دفن کر تے ہوئے معاشی ترقی، روزگار، اختیار اور انصاف کا نظام ملک میں رائج کرنے کے لیے اپنے گاؤں، گوٹھ اور شہر میں لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کا یومِ حساب بپا کر دیں۔
قارئین! جمہوری اور عوامی انقلاب ہی اصل منزل ہے۔ یہ ملک، اس کے وسائل اور ذرائع آپ کے ہیں…… لیکن ان پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے، جسے عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے ہی واپس لے سکتے ہیں۔
قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کے افکار و نظریات کے مطابق جمہوری انقلاب کے لیے پوری قوم کو آگے آنا ہوگا……!
مَیں سمجھتا ہوں کہ خواتین اور خاص کر نوجوان اس نظام کا اصل اثاثہ ہیں۔ ایسے مواقع ضائع ہونے سے بچائیں۔ انتخابات میں باہر نکلیں اور بھر پور حصہ لیں۔ اس بار پورا نظام اور خاص کر عدلیہ قوم کے ساتھ کھڑی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔