جون 1897ء کی ایک صبح مسٹر ’’جی‘‘ نامی ایک برطانوی پولی ٹیکل ایجنٹ شمالی وزیرستان کے ’’مائزار‘‘ دیہات ایک بھاری جمیعت کے ساتھ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے آگیا۔اس کے آنے کا مقصد ایک چھوٹے سے قلعے کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب تھا۔ وزیریوں کو اس کا پتا نہیں تھا۔ انھیں شک تھا کہ اُن کی زمینیں گذشتہ سال ایک ہندو تاجر کے قتل کی پاداش میں ضبط کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مسٹر جی کے ساتھ اتنی بڑی حفاظتی دستے کی موجودگی سے حیرت زدہ تھے اور خوف زدہ بھی…… لیکن اُنھوں نے ظاہری طور پر اُن کو خوش آمدید کہا اور اُن کی دعوت کی۔برطانوی عملہ وزیریوں کی مہمان نوازی سے سمجھے کہ اُن کو اَب کسی قسم کا خوف محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ’’میلمستیا‘‘ کے ساتھ یہ روایت بھی چلی آرہی تھی کہ مہمانوں کی حفاظت اب میزبانوں کا اخلاقی فرض بن گیا ہے۔ وہ بے فکر ہوکر آرام کرنے لگے، لیکن وزیری قبائل نے انھیں غافل پاکر ہلہ بول دیا اور لاتعداد افسروں کو قتل کردیا۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
’’مائزار‘‘ کے قتلِ عام نے وہ آگ بھڑکائی جو پورے سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں پھیل گئی، جس کا سامنا برطانیہ نے اس سے قبل نہیں کیا تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں بھی وزیریوں کی مہم جوئی میں فرق نہیں آیا۔ 1929ء میں نادرشاہ کو کابل کا تخت دلانے میں ان کا بڑا مضبوط رول تھا۔ انگریزوں کے ساتھ آخری بڑی لڑائی میں جو 1936ء اور 1937ء تقریباً دو سال پر محیط رہی، اُنھوں نے برطانوی ہند کی فوج کے تقریباً پچاس ہزار باقاعدہ فوجی ہلاک کر ڈالے۔یہ اُن کی گوریلا طرزِ حرب میں مہارت کی نشانی ہے۔ کیوں کہ وزیرستان کی سرزمین اس قسم کی لڑائیوں کے لیے قدرتی طور پر موزوں ہے۔ اسی بنجر و بے آب وگیاہ پہاڑوں کے درمیاں طوری خیل وزیر کا ایک جنگ جو پیدا ہوا، جو سرحد کا ’’بدنام ترین دشمن‘‘ تصور کیا جاتا تھا۔1890ء میں پیدا ہونے والے اس حریت پسند کا نام ’’میرزا علی خان‘‘ تھا، لیکن وہ ’’فقیر ایپی‘‘ کے نام سے مشہور ہوا……جو لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرکے اُن کو دہشت زدہ کردیتا تھا، جب 1960ء میں وہ مرگیا، تو اپنے پیچھے برطانوی اور پاکستانی حکومتوں کے خلاف 30 سالہ مبارزت کی یادیں چھوڑ گیا۔
فقیر ایپی دھوکا دہی اور نہایت وحشیانہ طرزِ جنگ کا رسیا تھا۔ وہ قبائیلیوں کی مذہبی تعصبات سے بھی فائدہ اٹھاتا تھا۔ جو کوئی اُسے پیسے دیتا تھا، وہ لینے سے ہچکچاہٹ نہیں کرتا تھا۔ وہ خطرناک ترین قانون شکن مفروروں کو پناہ دیتا تھا۔ وہ قبائلی علاقوں میں تعینات پولی ٹیکل افسران کے بیوی بچوں کو اِغوا اور قتل کرنے کے لیے اپنے پیروکاروں کو انعامات دیتا تھا۔ اس کے ساتھ جس کا بھی واسطہ پڑا، وہ سب سوائے چند ایک کے ایک پاکستانی افسر کی اس بات سے متفق ہیں کہ وہ ایک بوڑھا ظالم شخص ہے جو نفرت اور خودغرضی کا مجسمہ ہے۔ تاہم موت سے بہت پہلے ہی ’’ایپی‘‘ پورے سرحد میں ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیار کرچکا تھا…… اور اُس شہرت میں گلیمر بھی شامل تھا۔ اُس کی ابتدائی کامیابیوں میں اُس کی انگریزی قوانین سے مذہب کی بنیاد پر نفرت کا عنصر بھی شامل تھا۔ پھر بھی آزاد منش قبائلیوں کے لیے اُس کی حریت پسندی ہی اُن کو گرویدہ کرنے کے لیے کافی مؤثر رہی۔ایک قبایلی مشر نے بتایا کہ وہ ہر ایک سے سونا لیتا تھا، مگر کام کسی کا نہیں کرتا تھا۔
اُس مشر کی باتوں میں ایک حاسدانہ تعریف شامل تھی۔ اُس کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ فتح کی موہوم سی امید نہ ہونے کے باوجود وہ مایوس نہیں تھا اور ثابت قدمی سے اپنی مزاحمت جاری رکھتا تھا۔ زندگی کے آخری سالوں میں وہ ’’گوریخت‘‘ کی ایک پہاڑی غار میں محصور ہوکر رہ گیا۔ یہ ڈیورنڈ لائن کے قریب تھا، اسی جگہ سے آخری دم تک اپنی مخالفت جاری رکھی۔ وہ اپنی موت تک وہیں رہا،جب اُس کے ساتھ تھوڑے پیروکار رہ گئے تھے…… اور ہر قسم کی سہولیات زندگی سے محروم ہوگیا تھا، وہ سہولیات جو ایک کامیاب مشر کا خاصہ ہوتی ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اُس کے افسانوی کردار کو اُس کے پرانے اور سخت ترین دشمنوں نے اُجاگر کیا۔
20 اپریل 1960ء کے ٹائمز اخبار میں اُس کی موت کی خبر آدھ کالم سے زیادہ حصے پر شائع ہوئی۔ اس کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اخبار نے لکھا: ’’وہ ایک با اصول اور روحانی شخصیت تھے اور وہ قبائلی بغاوت کے محرک اور جنرل تھے۔‘‘
(The Way of the Pathan by James W.Spain)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔