پرسوں ماہ نامہ اُردو ڈائجسٹ (مئی 2023ء) کو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ صفحہ نمبر 173 پر ’’دوانہ مرگیا‘‘ کے زیرِ عنوان درج تھا:
’’راجا رام نرائن موزوںؔ زیادہ تر فارسی میں شعر کہتے تھے۔ شیخ علی حزیںؔ اُن کے استاد تھے۔ نواب سراج الدولہ کے دامنِ دولت سے وابستہ رہے۔ ایک الزام میں ملزم قرار پائے اور نواب محمد قاسم کے حکم سے اگست 1763ء میں دریائے گنگا میں غرق کردیے گئے۔ تذکروں میں ان کا مندرجہ ذیل شعر درج ہے:
غزالاں! تم تو واقف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی
دِوانہ مرگیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزرا
کامریڈ امجد علی سحابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
مصرعِ ثانی پر آکر حیرت سی ہوئی کہ روزِ اول سے ہم اسے یوں کوٹ کرتے چلے آ رہے ہیں:
دِوانہ مرگیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
ملا کی دوڑ مسجد تک کے مصداق بلا توقف شعر کو گوگل (Google) کیا، تو سب سے پہلے اُردو شاعری اور نثر کے حوالے سے مستند مانی جانے والی ویب سائٹ ’’ریختہ ڈاٹ اُو آر جی‘‘ کا حوالہ ہاتھ آیا۔ ملاحظہ ہو:
دِوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
ایک حوالہ ’’اُردو ویب ڈاٹ اُو آر جی‘‘ جسے عرفِ عام میں ’’اُردو محفل‘‘ کہتے ہیں، کا ہاتھ آیا۔ ’’الف عین‘‘ نامی ایک صارف نے شعر یوں رقم فرمایا ہے:
غزلاں! تم تو واقف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی
دِوانہ مرگیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
یعنی یہاں ’’غزالاں‘‘ کی جگہ ’’غزلاں‘‘ رقم ملتا ہے، جو ظاہر ہے ٹائپنگ کی غلطی ہے، مگر مصرعِ ثانی ماہ نامہ اُردو ڈائجسٹ کی تردید کرتا ملتا ہے۔
اس کے علاوہ جتنے بھی حوالے ملے، سب میں مصرعِ ثانی ’’گزری‘‘ پر ختم ہوتا پایا۔
یہ گتھی سلجھانے کی غرض سے محمد شمس الحق کی کتاب ’’اُردو کے ضرب المثل اشعار تحقیق کی روشنی میں‘‘ (مطبوعہ ’’فکشن ہاؤس‘‘، اشاعتِ سوم، ترمیم و اضافہ شدہ، سنہ 2020ء) کا سہارا لیا۔ صفحہ نمبر 22 پر شعر یوں رقم ملا:
غزالاں، تم تو واقف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مرگیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزرا
آگے جاکر اسی کتاب کے صفحہ نمبر 153 پر محمد شمس الحق اس شعر کی تاریخ کے حوالے سے رقم طراز ہیں: ’’یہ شعر راجا رام نرائن موزوںؔ نے اُس وقت فی البدیہہ کہا تھا، جب انھیں سراج الدولہ کے قتل کی خبر ملی تھی۔ شاعر نے دوسرے مصرع میں ’’گزرا‘‘ استعمال کیا ہے، لوگ ’’گزری‘‘ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔‘‘
حوالے کے طور پر محمد شمس الحق دو کتب کے نام مع تفصیل کچھ یوں درج کرتے ہیں:
(الف) ’’تذکرۂ شعرائے اُردو‘‘ مولفۂ میر حسن، بہ تصحیح و تنقیدِ مولانا حبیب الرحمان خاں شیروانی، انجمنِ ترقیِ اُردو (ہند)، دہلی، 1940ء، صفحہ 150۔
(ب) ’’آوارہ گرد اشعار‘‘ قاضی عبدالودود، مشمولۂ ’’نقوش‘‘، لاہور، ادبِ عالیہ نمبر، اپریل 1980ء، صفحہ نمبر 137۔
حاصلِ نشست:۔ اتنے مستند حوالوں کے بعد ’’گزری‘‘ کی جگہ مصرعِ ثانی میں ’’گزرا‘‘ کو ترجیح دینی چاہیے یعنی شعر یوں درست قرار پائے گا کہ
غزالاں، تم تو واقف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مرگیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزرا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔