تاریخ انسانی میں ’’انسانی حقوق‘‘ کے آغاز و ارتقا اور اس کے عملی نفاذ کا سہرا انسانیت کے محسنِ اعظم، خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے سر ہے۔ آپ نے نو ذی الحجہ 10 ہجری جمعہ کے دن حجۃ الوداع کے موقع پر نہایت فصیح و بلیغ الفاظ میں عظیم الشان اور تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا جو کہ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے اور نہ صرف اسلامی بلکہ بنی نوع انسان کی پوری تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں بنیادی انسانی حقوق و فرائض کا مکمل تحفظ اور احاطہ کیا گیا ہے۔ چودہ سو سال پہلے پیش کیا جانے والا یہ چارٹر ملکوں، نسلوں، قبیلوں، رنگوں، زبانوں اور زمانوں کی حدود پھاند کر پوری انسانیت کے تمام ادوار کو اپنی حدود میں سمیٹ لیتا ہے۔ اس بے مثال خطبے میں حقوقِ انسانی پر مشتمل کم و بیش چالیس دفعات شامل ہیں جو امن و آشتی، عدل و مساوات اور انسانیت کے احترام و تحفظ کی ضامن ہیں اور مغربی دنیا کے ’’انسانی حقوق‘‘ کے آغاز و ارتقا تک تمام انسانی حقوق کے منشور اور دستاویز پر فوقیت و اہمیت رکھتی ہیں۔ میدان عرفات میں، جہاں عرب کے گوشے گوشے سے آئے جاں نثارانِ نبوت کا تاحدِ نظر ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آتا تھا۔ اس موقع پر محسنِ انسانیت نے عظمت و احترام انسانیت کا وہ پیغام دیا کہ نہ تو روم و ایران کی سلطنتوں میں اس کا تصور تھا اور نہ مصر و یونان کی تہذیبوں میں اس کا کوئی وجود تھا۔ سیدِ کائنات نے ہر سسکتے اور پسے طبقے کو وہ عروج بخشا کہ انسانیت ہمیشہ اس عظمت و احترام پر نازاں رہے گی۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر انتہائے کائنات تک میگنا کارٹا اور جنیوا کنونشن سمیت کوئی دستور اور ضابطہ اس کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
سید کائنات حضرت محمد اپنی اونٹنی (قصویٰ) پر سوار تھے، آپ نے اعلان فرمایا زمانۂ جاہلیت کے دستور میرے پاؤں تلے ہیں۔ آپ نے امتیازات، تفاخر، تصنع اور تکبر کا خاتمہ کرکے انسانیت کی ناہم وار سطح کو برابر کر دیا۔ آپ نے فرمایا، لوگو! تم سب آدمؑ کی اولاد ہو، آدمؑ کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ کسی عربی کو عجمی ، گورے کو کالے، سرخ کو سفید پر کوئی فضیلت نہیں۔
پیغمبرِ اعظم ، محسنِ انسانیت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا ’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘ اس لحاظ سے بھی تاریخی اہمیت کا حامل اور امتیازی مقام رکھتا ہے کہ اس میں اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام اور معاشی، سماجی ناہم واریوں کے خاتمے کے لیے رسم و رواج کے استیصال کا آغاز اپنے گھر سے کیا گیا، اور تمام اعلانات، ہدایات اور تعلیمات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی حیاتِ طیبہ میں ہی نافذالعمل کرکے معاشرے میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات کے اصولوں پرمبنی دستور کا جزو لاینفک بنا دیا گیا۔ صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ نبی کریمؐ نے اپنے چچا زاد ربیع بن حارث کا خون معاف کرنے کا اعلان فرمایا۔ معاشی ناہم واری کے خاتمے کے لیے سود کو باطل قرار دیا اور آغاز اپنے چچا حضرت عباسؓ سے کیا۔ متمدن اور مہذب سلطنتوں اور معاشروں میں بھی عزت و عظمت کے لیے ترس کر رہ جانے والی صنفِ نازک کو وہ احترام، مرتبہ اور حق عطا کیا کہ حواؑ کی بیٹی اس پر ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔
سنن ابی داؤد میں ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا، لوگو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈر جاؤ۔ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حاضرین کو مخاطب کیا کہ یہ کون سا شہر، کون سا دن اور کون سا مہینا ہے۔ میدانِ عرفات پر سکوت طاری تھا۔ پھر محسنِ کائنات نے استفہامیہ انداز میں خود ہی فرمایا کہ کیا یہ مکہ نہیں، کیا یہ ذوالحج نہیں اور کیا آج یوم الحج نہیں؟ تو صحابہ کرام یک زبان پکار اٹھے، کیوں نہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مکہ ہی ہے۔ ذوالحج کا ہی مہینا ہے اور یوم الحج ہے۔ کائنات میں احترام انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار نے فرمایا کہ تمھاری جان، تمھارا مال اور تمھاری عزت ایک دوسرے کے لیے اسی طرح قابلِ احترام ہے جس طرح بیت اللہ مکہ، ذوالحج اور یوم الحج محترم ہیں۔
دیکھو کہیں میرے بعد گم راہ نہ ہو جانا کہ آپس میں ہی کشت و خون کرنے لگو۔ اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے، تو وہ اس کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچا دے۔
لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں…… غلاموں کا خیال رکھو، انھیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ایسا ہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔ مَیں تمھارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ تم کبھی گم راہ نہ ہو سکوگے، اگر اس پر قائم رہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے۔ اور ہاں دیکھو، دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انھی باتوں کے سبب ہلاک کر دیے گئے۔
لوگو! اپنے ربّ کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، مہینے بھر کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوٰۃخوش دلی کے ساتھ دیتے رہو، اپنے خالق اللہ کے گھر کا حج کرو، تو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمے دار ہوگا۔ آگاہ ہو جاؤ! اب نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا اورنہ بیٹے کا بدلہ باپ سے۔
صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد کی روایات میں ہے کہ محسنِ کائنات نے اپنے مخاطبین سے استفسار کیا کہ اللہ تم سے میرے بارے میں پوچھے گا تو کیا جواب دو گے؟ تو جماعتِ صحابہ پکار اٹھی کہ آپ نے اللہ کا پیغام کماحقہ پہنچا دیا، تو خاتم المرسلین نے انگلی آسمان کی طرف اُٹھائی اور کائنات کے واحد مالک و مختار سے مخاطب ہوئے کہ اے اللہ تو گواہ رہنا، انسانیت کے لیے اس سے بڑا پیغامِ مسرت و انبساط کیا ہو سکتا تھا کہ دشمن بھائی بھائی بن گئے۔ غلام کو آقا کے برابر حقوق دیے گئے۔ حسب نسب کی فضیلت اور جاہلیت کی بڑائی پر تقوا اور قانون مساوات غالب آگیا۔ انسانی جان، عزت اور مال کے احترام سے معاشرتی ناہم واری ختم کی گئی۔ بلاشبہ آج بھی خطبہ حجتہ الوداع کو بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کے طورپر نافذ کر دیا جائے، تو بہترین اسلامی فلاحی ریاست تشکیل پا سکتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔