انبیا علیہ السلام کے بعد دنیا بھرمیں اسلام پھیلنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ وہ بندگانِ دین ہیں، جنھوں نے اپنی سیرت و کردار، اور اپنے عمدہ اخلاق و عمل سے علم کی قندیلیں روشن کرکے اسلام کا روشن چہرہ دنیا بھر میں متعارف کروایا اور طبقات کو جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکال کر صراط المستقیم پر گام زن کیا۔ انھی عظیم ہستیوں میں برصغیر پاک وہند کے ایک عظیم مبلغ شیخ الاسلام حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
وہ صحابیِِ رسول حضرت سیدنا ہبا بن اسود ہاشمی قریشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔ باری تعالا نے آپ کو بے پناہ تبلیغی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا۔ علم و عرفان اور تقوا و اخلاق کا اعلا ترین نمونہ تھے۔ کفر و شرک میں مبتلا انسانیت کو توحید کا درس دیا۔ غافل مسلمانوں کو یادِ الٰہی کا سبق پڑھایا…… اور محبت سے محروم دلوں کو اللہ اور اللہ کے رسول خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل کی محبت سے معمور کر دیا۔ اللہ تعالا نے آپ کو علومِ ظاہری کے ساتھ ساتھ علمِ روحانیہ اور فیوضِ باطنیہ میں بہت بلند مقام عطا فرمایا تھا۔ آپ نے ہزاروں لوگوں کو دولت اسلام عطا کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اخلاقی تعلیم و تربیت بھی فرمائی۔ آپ نے ایک منفرد تبلیغی نظام قائم کرکے اشاعتِ اسلام کے لیے جو خدمت سرانجام دی، وہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں رقم کی گئی ہے۔
حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ کی تعلیم و تربیت بہت چھوٹی عمر میں شروع ہوگئی تھی۔ صرف سات سال کی عمر میں قرات کے ساتھ کلام اللہ حفظ کرکے قاری مشہور ہوگئے تھے۔ جب آپ کی عمر بارہ سال کی ہوئی، تو آپ کے والدِ محترم کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا، لیکن آپ کی تعلیم بدستور جاری رہی۔
آپ کی رسا طبیعت اور خداداد ذہن کا یہ عالم تھا کہ ایک بار جو چیز نظر سے گزر جاتی، وہ محفوظ ہو جاتی۔ آپ نے تحصیلِ علم کے شوق سے سیاحت بھی کی۔ والدِ محترم کی وفات کے بعد آپ نے ملتان سے خراسان کا سفر کیا۔ وہاں پہنچ کر سات سال تک بزرگانِ دین سے علم حاصل کیا اور اس قدر کمال حاصل کیا کہ درجۂ اجتہاد کو پہنچ گئے۔ مجاہدے، مشاہدے اور مکاشفے میں بہت زیادہ مشق کی۔ آپ کے اوصاف دل موہ لینے والے اور عادتیں لوگوں کو گرویدہ کر لینے والی تھیں، جس کی وجہ سے اہلِ بخارا آپ کو بہاؤ الدین فرشتہ کہتے تھے۔
جلد ہی آپ کی شہرت خراسان اور بخارا کے گرد و نواح سے بھی آگے پہنچ گئی۔ بخارا میں آٹھ سال تک تحصیلِ علم کے بعد آپ حج کے لیے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور معمولاتِ حج سے فارغ ہوکر حضور رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس کی زیارت کے لیے مدینہ منورہ پہنچے۔ پانچ سال تک حضور کے روضہ کی زیارت سے شرف یاب ہوتے رہے اور روضۂ اقدس کے مجاور بنے رہے۔
614 ہجری میں آپ دوبارہ ملتان تشریف لائے۔ اُس وقت آپ کی عمر چھتیس یا سینتیس سال تھی۔ اہلِ ملتان کی اس درخواست پر آپ نے تبلیغ، دین کا سلسلہ شروع کر دیا اور ملتان کی حالت علمی، ظاہری و باطنی طور پر بدل کر رکھ دی۔ ہر طرف مسجدیں تیار ہونے لگیں۔ مدرسے تعمیر ہونے لگے۔ لنگر خانے بنائے گئے۔ شہر میں بڑی بڑی اور صاف ستھری عمارتیں تعمیر ہونے لگیں اور ملتان کی رونق بڑھنے لگی۔
آپ یہاں لوگوں میں ترویجِ علم کے لیے ایک عملی درس گاہ کا قیام عمل میں لائے، جو آپ کی خانقاہ سے متصل تھی۔ جس نے ا فراد اور معاشرے کی اصلاح کے لیے مثالی خدمات سر انجام دیں۔ لوگ یہاں آکر ٹھہرتے اور آپ کی صحبتِ بابرکت سے فیض یاب ہوتے۔ اپنے قلوب کی پاکیزگی کا اہتمام کرتے۔ اس درس گاہ کے دو شعبے تھے۔ ایک شعبے میں علما تربیت حاصل کرتے تھے اور دوسرے میں مبلغینِ اسلام اسلامی تعلیم اور طور طریقوں سے بذریعۂ استاد استفادہ کیا کرتے تھے۔ ان حضرات کو اس بات کا سبق دیا جاتا تھا کہ وہ جس علاقے یا ملک میں جائیں، وہاں کی معاشرت اور زبان سے واقفیت کا ہونا ضروری ہے۔
حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ بہت مال دار اور سخی تھے۔ اس لیے طالب علموں کے تمام اخراجات آپ خود پورے کرتے۔ مفت تعلیم کے علاوہ خوراک، لباس اور رہایش کا انتظام بھی موجود تھا۔ بزرگانِ دین کے ملفوظات شاہد ہیں کہ آپ کی درس گاہ سے ہزاروں طالب علم قرآن و حدیث اور فقہ کے علاوہ خطاطی، تاریخ نویسی، ظروف سازی ، جلد سازی اور تجارت سمیت مختلف علوم و فنون کے ماہر بنے۔ جنھوں نے ہندوستان کے علاوہ جاوا، سماٹرا، انڈونیشیا، فلپائن، خراسان اور چین تک اسلام کی روشنی پھیلائی۔
حضرتِ شیخ کی تعلیم اور حکم کے مطابق تبلیغی جماعت سوداگروں کے لباس میں بحری جہازوں پر سامانِ تجارت لاد کر ملتان سے روانہ ہوجاتی اور دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی دکانیں کھولتی اور اسلامی اصولوں کے مطابق تجارت شروع کردیتی۔ جب ان کی ایمان داری، شرافت، عفو و درگزر، تحمل مزاجی سے گاہک اور حلقۂ احباب متاثر ہوتے، تب وہ اللہ کا پیغام پہنچاتے۔ اسلام کی دعوت دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مشرقِ بعید کے چھوٹے چھوٹے جزیروں میں جو کروڑوں مسلمان نظر آتے ہیں، وہ ان بزرگانِ دین اور صوفیائے کرام کی سعی اور تبلیغ کا نتیجہ ہے۔
آپ کے گرد ہر وقت طالبانِ حق کا ایک مجمع لگا رہتا تھا۔ عقیدت مندوں کی فہرست کا جائزہ لیا جائے، تو اندازہ ہو گا کہ حضرتِ شیخ کی خانقاہ میں بڑے بڑے اولیاء اللہ نے قیام فرمایا۔ مثلاً حضرت خواجہ غریب نواز، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت حمید الدین ناگوری، جلال الدین تبریزی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر۔
حضرتِ شیخ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رشتے میں خالہ زاد بھائی تھے اور آپس میں گہری محبت رکھتے تھے۔ دونوں حضرات کئی سال تک سفر حضر میں اکٹھے رہے اور دونوں ایک دوسرے کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ ان کی صحبت میں رنج و ملال کا وہم وگمان بھی نہ ہو سکتا تھا۔
حضرت بابا فرید الدین گنج شکر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجلس میں زہد و تقوا کی گفت گو ہو رہی تھی۔ حضرت برادرم بہاؤ الدین زکریا اور مَیں یکجا بیٹھے ہوئے تھے۔ برادرم بہاؤ الدین زکریا نے فرمایا کہ زہد تین چیزوں پر موقوف ہے جس میں یہ تینوں باتیں نہیں، وہ زاہد کہلانے کا مستحق نہیں۔ اول، دنیا کو پہچاننا اور اس سے مایوس نہ ہونا۔ دوسرے، اولاد کی خدمت کرنا اور اس کے حقوق کی نگہ داشت کرنا۔ تیسرے، آخرت کی طلب اور اس کے حصول میں لگا تار کوشاں رہنا اور اللہ کی رحمت پر بھروسا رکھنا۔
حضرت بہاؤ الدین زکریا سے کشف و کرامات کے بہت سے واقعات منسوب ہیں اور جو مورخین کے مطابق حقیقت پر مبنی ہیں۔ ان جیسی عظیم ہستیوں نے اپنی پوری عمر عبادت و ریاضت اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے میں بسر کی۔ دنیا کی محبت اور کشش ان کے لیے بے معنی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملتان اور اہلِ ملتان ان کے وجود پر نازاں ہیں کہ ان کا وجود تبلیغ و اشاعتِ اسلام کے ساتھ ساتھ ملتان کی ترقی و مشہوری کا ذریعہ بنا۔
حضرتِ شیخ کا عرس چند روز بعد ملتان میں شروع ہورہا ہے، جس میں شرکت کے لیے ملک بھر خصوصاً اندرونِ سندھ سے مریدین و معتقدین کے قافلے پا پیادہ حاضر ہوتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔