ماہرِ لسانیات، فلسفی، شاعر، ادبی نقاد اور مصنف ’’جون ایلیا‘‘ 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ میں اُس علمی گھرانے میں پیدا ہوئے، جو ’’ساداتِ امروہہ‘‘ کے نام سے موسوم ہوا۔
جونؔ کا نام سیّد جون اصغر نقوی رکھا گیا۔ والدِ محترم علامہ شفیق حسن ایلیا اُردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبان کے عالم تھے۔ تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اُردو کے ممتاز دانش ور اور معروف صحافی و فلسفی سیّد محمد تقی اور معروف شاعر و کالم نگار رئیس امروہی جونؔ کے بڑے بھائی تھے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
گھر کا ماحول علمی وادبی تھا، جس کا اثر جونؔ کی شخصیت پر بھی پڑا۔ بقولِ جونؔ 8 سال کی عمر میں ایک قتالہ اُن کے دل کو بھاگئی اور شاید اسی حادثے نے ایک دوسرے حادثے کو جنم دیا کہ اُن سے یہ شعر سرزد ہو گیا
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رُخسار کی
جون لڑکپن میں بہت حساس طبیعت کے مالک تھے۔ اُنھوں نے اس دور میں صوفیہ نامی ایک خیالی محبوبہ پال رکھی تھی، جو اُن کے خواب و خیال، ہوش و حواس اور عقل و خرد پر چھائی ہوئی تھی۔
ابتدائی تعلیم والدِ گرامی سے حاصل کی تھی۔ اُردو، فارسی، عبرانی، عربی اور انگریزی زبانوں پر اُنھیں بغیر محنت کیے ہی عبور حاصل ہوگیا تھا کہ اول الذکر چاروں زبانیں گھر کی باندی تھیں۔
جونؔ کی نوجوانی میں پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ جونؔ کمیونسٹ نظریات کے حامی تھے۔ پاکستان بننے کے مخالف تھے، مگر بعد میں اُنھوں نے تقسیم کو ایک سمجھوتے کے طور پر قبول کرلیا۔
جونؔ نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ نئے لہجے، متنوع مضامین اور پڑھنے کے نرالے انداز کی بدولت وہ جلد ہی ادبی حلقوں میں مقبول ہوگئے۔ وہ بہت زود گو اور اَن تھک انسان تھے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ نثر بھی بے بہا لکھی، مگر مزاجاً بے پروا تھے۔ تحریری کام شائع کروانے پر اُنھیں کبھی آمادہ نہ کیا جاسکا۔ اس کا اندازہ اسی بات سے لگالیں کہ اُن کا پہلا مجموعۂ شاعری ’’شاید‘‘ جب شائع ہوا، تو اُن کی عمر 60 برس تھی۔ یہ واحد کتاب ہے، جو اُن کی زندگی میں شائع ہوئی۔ دیگر پانچوں مجموعے ’’یعنی‘‘، ’’گمان‘‘، ’’لیکن‘‘، ’’گویا‘‘ اور ’’رموز‘‘ کے علاوہ اُن کے مختصر مضامین کا مجموعہ ’’فرنود‘‘ بھی اُن کی وفات کے بعد شائع ہوا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
شاعر، فسلفی، سوانح نگار اور عالم ’’جون ایلیا‘‘  
جون ایلیا کے احباب  
حضرتِ جون ایلیا  
جون ہونا کوئی مذاق نہیں
فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی انسائیکلو پیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ وہ ان موضوعات پر گھنٹوں بے تکان بول سکتے تھے۔ اپنے اس علم و ہنر کو اُنھوں نے اپنی شاعری میں بھی فراخی کے ساتھ استعمال کیا اور اس خوب صورتی سے کیا کہ اپنے ہم عصروں میں ایک ممتاز مقام کے حامل بن گئے۔
جونؔ ایک ادبی رسالے ’’انشاء‘‘ سے بطورِ مدیر وابستہ ہوگئے، جہاں اُن کی ملاقات اُردو ادب کی ایک اور زود نویس اور اَن تھک شخصیت زاہدہ حنا سے ہوگئی۔ زاہدہ حنا بھی اپنے انداز کی ترقی پسند مصنفہ اور دانش ور تھیں۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو بھاگئے۔ جون اور زاہدہ حنا نے آپس میں شادی کرلی۔ زاہدہ حنا سے جون کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا، مگر یہ شادی دیرپا ثابت نہ ہوسکی اور 1980ء کے عشرے کے وسط میں اس شادی کا انجام طلاق کی صورت میں نکلا۔ طلاق نے جون کوصحیح معنوں میں توڑ کر رکھ دیا۔ وہ تو شادی شدہ زندگی میں بھی بکھرے بکھرے سے تھے، اُنھیں تب بھی سمیٹنے والے کی ضرورت تھی اور زاہدہ حنا نے اس ’’ضدی بچے‘‘ کو بساط سے بڑھ کر سمیٹا بھی، مگر اس بکھرے وجود کو سمیٹتے سمیٹتے شاید اس کی کرچیوں سے اس کے ہاتھ اتنے شدید زخمی ہوگئے کہ وہ اُن زخموں کی ٹیسیں برداشت نہ کرسکیں۔ کیوں کہ جونؔ بھی تو سدا کے بے پروا تھے۔ اُن میں نرگسیت انتہا سے بڑھی ہوئی تھی۔ وہ ’’یوٹوپیا‘‘ میں رہنے والے اور خود کو دیوتا کے سنگھاسن پر براجمان دیکھتے رہنے کے متمنی تھے۔ اسی لیے جونؔ کو یہ صدمۂ جانکاہ توڑ گیا۔ تنہائی نے اُن کی حالت ابتر کردی۔ اور پھر آخر تک وہ سنبھل نہ سکے۔ طویل علالت کے بعد 8 نومبر 2002ء کو کراچی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ جہاں سخی حسن کے قبرستان میں وہ آسودۂ خاک ہیں۔
حکومتِ پاکستان نے جونؔ کی زندگی (سنہ 2000ء) میں اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں اُنھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔
جونؔ ایلیا ایک قادرالکلام شاعر تھے۔ اُردو زبان پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی، مگر اُنھوں نے انتہائی سادہ اور عام فہم زبان اور تکرارِ لفظی کے استعمال سے مشکل مضامین کو بھی اس مہارت سے باندھا کہ سننے والے اش اش کر اُٹھے۔ اُن کا لہجہ دیگر شعرا سے منفرد تھا۔ یہ انفرادیت ہی اُن کی پہچان بن گئی۔ وہ اپنی طرز کے خود ہی موجد اور خود ہی خاتم ہیں۔
بعد میں آنے والوں نے جونؔ کا لہجہ اور اُن کا انداز اپنانے کی شعوری کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ جونؔ بس ایک ہی تھا:
یہ ہے اک جبر اتفاق نہیں
جونؔ ہونا کوئی مذاق نہیں
وہ اقدار شکن تھے، باغی تھے، لااُبالی تھے، مگر اُن کا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے طرزِ زندگی کو اپنے فن میں سمو دیا۔ وہ باغی تھے، تو یہ باغیانہ روش اُنھوں نے اپنے محبوب سے بھی اختیار کی۔
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یک سر بھلا چکی ہو کیا؟
محبوب کے ساتھ جونؔ کا رویہ بڑا بے باکانہ ہے، جوبعض جگہ جارحانہ بھی ہو جاتا ہےـ:
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اُس زُباں دراز کا منھ نوچ لے کوئی
اور یہاں تو جونؔ نے کمال ہی کر دیا ہے۔ خود کو بھی ہرجائی کہنے سے باز نہیں آئے:
شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں
یہ لہجہ، یہ مضامین اور یہ اشعار چونکا دینے والے ہیں۔ ایسا صرف جونؔ ہی لکھ سکتے تھے۔ اُنھیں اپنی تنہائی کا دکھ تھا۔ شاید اُن کے اندر کا خود فریب لڑکا جان بوجھ کر بغاوت پر آمادہ رہتا تھا کہ کوئی تو اُسے توجہ کے قابل سمجھے، کوئی تو اپنائیت سے روک ٹوک کرے:
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا؟
جونؔ نے زندگی بھر کسی کی پروا نہ کی، لااُبالی پن میں عمر گزار دی۔ وہ اپنی پروا کیا کرتا:
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
لیکن دنیا کی بے پروائی کے شاکی کو بعد از مرگ بھی وہ پروا اور پذیرائی ملی ہے، جو کم کم ہی کسی کے حصے میں آئی۔
جونؔ اس وقت نوجوان نسل کا پسندیدہ ترین شاعر ہے جسے ’’ریختہ اُردو ڈاٹ کام‘‘ پر سب سے زیادہ سرچ کیا جاتا ہے۔
بقولِ جونؔ
یہ ہے اک جبر اتفاق نہیں
جونؔ ہونا کوئی مذاق نہیں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔