مترجم: خلیل الرحمان 
ساحرہ دروازے کے فریم میں کھڑی اپنے بابا کو واضح ہوتا دیکھ رہی تھی۔ جب کہ صبح کا سورج اُس کے دودھیا سفید باورچی خانے کو روشن کر رہا تھا۔ وہ سنگِ مرمر کی میز پر بیٹھا ایک ریڈیو ٹرانزسٹر کی تاروں کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہا تھا۔ سورج کی دھوپ براہِ راست اُس پر سے گزر رہی تھی۔ ساحرہ نے اُس کی طرف ہاتھ بڑھایا، مگر صالح شانے جھٹک کر اُس سے ایسے غائب ہوا جیسے کہ سفید دیواروں پر سے سراب غائب ہوتا ہے۔
صالح اپنے سامنے پھیلے ہوئے برقی آلات کو حیرت سے تک رہا تھا۔ وہ ایسے بالکل بھی نہیں لگ رہے تھے، جیسے آج سے 20 برس قبل دکھتے تھے، جب اُسے پہلی بار ایرانیوں نے پکڑا تھا۔ اب وہ اپنا زیادہ تر وقت اُن پر تحقیق میں گزارتا تھا۔ قید میں، ہر شے یکسانیت کا شکار تھی۔ قیدی ایک دوسرے کو ایک ہی کہانی بیسیوں بار سناتے تھے اور یوں ظاہر کرتے تھے جیسے کہ وہ اُس کہانی کو پہلی بار سن رہے تھے۔ ساحرہ اُس کو دیکھ کر مسکرائی۔ وہ اپنے کام میں مگن ایک چھوٹے بچے کے جیسے لگ رہا تھا۔ وہ سنک کی طرف ترکاری دھونے اور اُسے خشک کرنے کے لیے بڑھی۔
ساحرہ پانچ سال کی تھی، جب اُس کے بابا قید ہوئے اور اُن کی رہائی کے وقت وہ 23 سال کی ہوچکی تھی۔ ساحرہ اور اُس کی ماں نے عراق اور ایران کے مابین 8 سالہ طویل جنگ کے اختتام کے بعد قیدیوں کے باہمی تبادلے کے پہلے، دوسرے اور تیسرے مرحلے تک اُس کا انتظار کیا۔ وہ لوٹ کر آنے والے قیدیوں سے استفسار کرتیں کہ کیا وہ صالح سے ملے یا وہ اُسے جانتے تھے۔ اُن میں سے کوئی بھی اُسے نہیں جانتا تھا۔ ساحرہ کی ماں 1996ء میں فوت ہو گئی…… اور صالح 1998ء میں رہا ہو کر آیا۔
اُن سردیوں میں ساحرہ نے تین راتیں بغداد کی النصور چوک پر اپنی کار میں سو کر گزاریں، جہاں اُن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ آخرمیں باقی رہ جانے والے جنگی قیدیوں کو اُن کے گھروں میں واپس لایا جائے گا۔ ساحرہ اپنے بابا کی ایک پرانی شناختی کارڈ والی تصویر لائی تھی، جس کو اُس نے بڑا کروا کے ایک سنہری فریم میں آویزاں کیا تھا۔ ساحرہ کو امید تھی کہ اگر صالح اُسے نہ بھی پہچان پایا، تو کم از کم وہ اپنا پرانا عکس پہچان پائے گا۔ ساحرہ اپنی گاڑی کی سیٹ پر دراز ہو گئی اور اپنی یخ انگلیوں کے پوروں کو ڈھانکنے کے لیے آستینوں کو نیچے کرلیا اور اونگھنے لگی۔ اس کی آنکھ افراتفری میں بھاگنے والے لوگوں کے گاڑی کو دھکے لگنے کی وجہ سے کھل گئی۔ ہجوم نے اپنے ساتھ ساتھ گاڑی کو بھی دھکیلنا شروع کر دیا۔
جب جیل کے دروازے کھلے اور محافظوں نے فارسی میں چلاتے ہوئے قیدیوں کو دفع ہو جانے کا کہا، تو پہلے پہل صالح کو یقین نہ آیا۔ صالح اور اُس کے ساتھی قیدیوں نے سوچا کہ اُنھیں مار دیا جائے گا۔ ایک پُرامید شخص نے دریافت کیا: ’’تمھارا کیا خیال ہے، کیا وہ ہمیں جانے دیں گے؟‘‘ صالح نے اسے چپت رسید کرتے ہوئے کہا: ’’اپنی بکواس بند کرو!‘‘ اُنھیں ایک قطار میں باہر لایا گیا۔ بیرونی دنیا آنکھوں کو چندھیا دینے کی حد تک روشن تھی۔ صالح آسمان کو دیکھنے کے لیے تڑپ رہا تھا، مگر وہ اُس کی آنکھوں کے لیے کچھ زیادہ روشن تھا۔ جب اُنھوں نے قیدیوں پر نئے کپڑے پھینکے اور اُنھیں کپڑے بدلنے کو کہا، تو صالح حیران رہ گیا۔ اُس نے اپنی پرانی قمیص سے ایک پٹی کاٹی اور اُسے چھپا لیا کہ اگر یہ جھوٹی تسلی ہوئی، تو وہ اپنا گلہ خود گھونٹ دے گا۔ پھر صالح اور دوسرے قیدیوں کو بسوں پر لے جایا گیا، جن کی گدیوں والی نشستیں تھیں۔ 18 برسوں میں صالح گدیلی نشست پرنہیں بیٹھا تھا۔ اُس نے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو گدیوں میں دھنسایا اور رونے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ گھر جا رہے تھے۔
’’بشریٰ……!‘‘
’’بابا……!‘‘
وہ ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور وقت تھم سا گیا۔ اُن کے گرد ہجوم چنگھاڑ رہا تھا۔
’’بشریٰ……!‘‘ صالح ساحرہ کے ہونٹوں پر بوسہ لینے ہی والا تھا۔
’’بابا، یہ مَیں ہوں، ساحرہ، ماں وہ……‘‘ ساحرہ ہچکچائی۔ صالح نے اپنے ہاتھ اپنی بیٹی پر سے بڑی تیزی سے یوں ہٹالیے جیسے کہ اُسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔ ساحرہ، اُس کی ننھی منی سی بیٹی جو اُس کی ٹانگوں سے چپک جایا کرتی تھی…… اور جب صالح کمرے میں چلتا تھا، تو وہ اُس کی ٹانگوں پر جھولا جھولتے ہوئے کھلکھلاتی تھی اور اپنے گھنگھریالے بالوں کو جھٹکے دیتی تھی۔ صالح نے اُس کی پیشانی پر بوسہ لیتے ہوئے کہا: ’’ساحرہ، مَیں تمھیں نہیں پہچان پایا۔‘‘
’’بابا……؟‘‘
صالح نے اُس کی طرف دیکھا جب ساحرہ تولیے سے اپنے ہاتھ خشک کر رہی تھی۔ ’’آپ کا کھانا تیار کر دیا ہے، جب بھی آپ کو بھوک لگے، آپ نے اس کو گرم کرلینا ہے ۔ اچھا…… مجھے اب کام پر جانا ہے۔ کیا آپ کو کسی شے کی ضرورت ہے؟‘‘ ساحرہ نے اپنا روزمرہ کا یک طرفہ مکالمہ ادا کیا۔ جب اپنے بابا کے پاس سے گزر کر اپنا کوٹ اور پرس اٹھانے گئی، تو اُس نے اُن کے سر کو سہلایا۔ ’’گھر سے باہر مت جانا، اچھا……اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بلا لینا۔‘‘
صالح اپنے ریڈیو کے اندرونی حصے کے کام میں اتنا مستغرق تھا کہ اُس نے ساحرہ کی پروا بھی نہ کی۔ صالح نے ایک بار کنڈی کی آواز سنی، اور پھر دوسری بار بھی اور پھر اس کی بیٹی کے دور جاتے ہوئے قدموں کی آواز سنی۔ صالح نے اپنے نیچے کرسی کے کشن کو ہاتھ لگا کر محسوس کیا کہ آیا وہ حقیقی ہیں کہ نہیں۔ پھر وہ اُٹھا اور چندھیا دینے والے سورج کا رستہ روکنے کے لیے پردے گرا دیے۔
مصنفہ کے متعلق چند سطور:
مونا فاضل ایک عراقی سماجی و فلاحی کارکن اور ایڈوکیٹ ہیں جن کا مقصد پناہ گیر مہاجرین، خواتین کے حقوق اور نسلی و مذہبی رواداری کا فروغ ہے۔وہ زیادہ تر جنگوں میں اور معاشی پابندیوں کے دوران میں پیش آنے والے واقعات اور تشدد جیسے مسائل پر روشنی ڈالنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
(عراق کی ایک شارٹ سٹوری از ’’مونا فاضل‘‘، مترجم ’’خلیل الرحمان‘‘ مطبوعہ ’’فلیش فکشن انٹرنیشنل 2015ء‘‘)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔