بچپن میں ہم ہفتے کے دو دن بہت خوش رہتے۔ ایک دن توپوں کی صفائی کا اور دوسرا رسالے، بگلرز اور مشین گن دستے کی مشترکہ پریڈ کا۔ توپ خانے کے کمان افسر عبدالحنان ہمارے پڑوسی تھے اور ہمیں اپنے بیٹوں اسفندیار اور اختر حسین کی طرح پیار کرتے تھے۔ صفائی کے مقررہ روز ہم سب ان کے ساتھ توپ خانے جاتے۔ آج کل تو اس جگہ پر کئی عالی شان بنگلے بنے ہوئے ہیں۔ نشان دہی کے لیے اتنا بتاسکتا ہوں کہ شاہ روان خان کی رہایش گاہ سے امیرمحمد ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ کے گھر تک توپوں کے گیرج تھے۔پھر بعد میں یہاں لکڑی کا گودام اور ’’ناخود کپتان صاحب‘‘ کا دفتر اور گھر تعمیر کیا گیا۔ کچھ توپوں کے گیرج سیمنٹ گودام کے قریب بنے ہوئے تھے۔ یہ سارے توپ نکال کر سڑک کے کنارے کھڑے کیے جاتے۔ اُن میں بعض کے سامنے گیرا پہاڑ کے وسط میں بنے ہوئے برجیوں پر نشانہ لے کر چند گولے فائر کیے جاتے۔ پھر مختلف قسم کے تیل سے توپوں کی نالیاں، سٹیئرنگ وہیلز، گولوں کے چیمبر وغیرہ صاف کیے جاتے۔ پھر صاف اور سفید کاٹن ویسٹ سے ان کو رگڑ رگڑ کر خشک کیا جاتا اور پھر زنجیروں سے کھینچ کر انھیں واپس گیرج میں کھڑا کیا جاتا۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
دوسرا دل کش ایونٹ جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے، اُس کا آغاز بھی افسر آباد ہی سے ہوتا۔ صرف مشین گن دستہ خونہ چم میں ایک گھاٹی کے اندر پہاڑ میں زیرِ زمیں بنے ہوئے اسلحہ ڈپو سے بھاری مشین گنیں نکال کر کندھوں پر رکھتا۔ اس دستے کی کمان شیر ملوک صوبیدار میجر کرتے تھے، جو نہایت سمارٹ تھے اور دل کش وردی میں ملبوس ہوتے تھے۔
رسالے میں اعلا نسل کے گھوڑے شامل تھے، جن پر چاق وچوبند سپاہی ہاتھ میں نیزے اور کمر سے تلواریں باندھے سوار ہوتے تھے۔
گھڑ سوار دو دو کی لائن میں کھڑے ہوتے۔ سب سے آگے گھوڑوں پر بڑے بڑے نقارے بندھے ہوئے ہوتے۔ یہ سب اپنے کمان افسر محمد شیرین اور سیکنڈ اِن کمانڈ غلام محمد رسال دار کا انتظار کرتے، جو افسر آباد کی آخری حویلی میں رہتے تھے۔
محمد شیرین کمان افسر بہت خوب صورت اور شان دار شخصیت کے حامل تھے۔ وہ اپنا مخصوص یونیفارم اور گھڑسواری کے لمبے بوٹ پہنے ہوتے۔ وہ بلند قامت تھے۔ اُن کے برعکس اُن کے سیکنڈ اِن کمانڈگھٹے ہوئے جسم کے نسبتاً درمیانے قد کے تھے۔ جب یہ دونوں مسجد افسر آباد کے قریب سے اکھٹے گھوڑوں پر سوار آہستہ خرامی سے آتے، تو ایک سماں بندھ جاتا۔
سڑک پر آکر محمد شیریں گھڑسواروں کی قیادت سنبھالتے۔ اُن کے پیچھے غلام محمد رسالدار کھڑے ہوجاتے۔ شیر ملوک صوبیدار میجر انگریزی میں مارچ کا کاشن دیتے، تو نقاروں پر زور کی چوٹ پڑتی۔بگلرز، بگل بجانے لگتے اور یہ شان دار پریڈ کمال ہم آہنگی سے آگے بڑھنے لگتی۔
صوبیدار میجر شیر ملوک کی چستی دیکھنے کے قابل ہوتی۔ وہ کبھی بگلرز کے ساتھ نظر آتے، تو اگلے لمحے اپنے مشین گن دستے کے پہلو میں لفٹ رائٹ کرتے نظر آتے۔ تقریباً ایک بجے یہ پریڈ واپس آکر خونہ چم کے قریب اختتام کو پہنچتی۔کبھی کبھی یہ پریڈ چارباغ تک جاتی اور شام کو واپس آجاتی۔
غلام محمد رسالدار صاحب بہت دلچسپ آدمی تھے۔ ہم بچوں سے گپ شپ لگاتے تھے۔ اپنے بیٹوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ اُن کو بہت پیارے ناموں سے بلاتے تھے۔ مثلاً: ایک امین الحق تھے، جو ایک پاؤں سے معذور تھے۔ اس کو ہمیشہ ’’جانان‘‘ کَہ کر بلاتے۔ دوسرے احسان اللہ تھے۔ باپ کی طرح صحت مند اور سرخ و سپید۔ اس کو ’’جان‘‘ کہتے تھے۔وہ ایک منجھے ہوئے فٹ بالر تھے اور اسکول ٹیم میں شامل تھے۔ ہائے وہ دن……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔