تبصرہ: بلال حسین بھٹی
’’بپسی سدھوا‘‘ پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت اُن کی عمر 80 سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے اُن چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے اپنے مشاہدے کی گہرائی اور اندازِ بیاں کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ اُن کا پہلا ناول "The Crow Eater” سنہ 1978ء میں شائع ہوا، جس نے اُنھیں بے پناہ شہرت سے نوازا۔
اپنے دوسرے ناول ’’بارات‘‘ کے بعد اُنھوں نے "Ice Candy Man” کے نام سے 1988ء میں ایک ناول لکھا، جو اَب تک ادبی حلقوں میں اُن کی بہترین تصنیف مانی جاتی ہے۔ 1991ء میں جب یہ ناول امریکہ میں چھپا، تو اس کا نام ’’کریکنگ انڈیا‘‘ رکھا گیا، جو کہ پہلے نام کی نسبت زیادہ جامع تھا۔ انڈیا میں اس ناول پر بالی وڈ میں ’’اَرتھ‘‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی۔ سدھوا کو1991ء میں ان کی بہترین ادبی کاوش پر ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔
تقسیم کی تباہ کاریاں اور اس میں ہونے والے انسانیت سوز واقعات پر اب تک بہت زیادہ لکھا جا چکا ہے۔ برصغیر کے تقریباً تمام بڑے ادیبوں نے بٹوارے کو اپنی فکشن کا موضوع بنایا۔ ’’آگ کا دریا‘‘، ’’اُداس نسلیں‘‘، ’’آنگن‘‘، ’’راکھ‘‘ اور دیگر کئی ناولوں کے علاوہ ’’بیدی‘‘، ’’انتظار‘‘، ’’منٹو‘‘، ’’غلام عباس‘‘ اور اُردو کے دیگر بڑے فسانہ نگاروں کے افسانے ہمیں جس قسم کی تقسیم کا منظر دکھاتے ہیں، اس کا زیادہ تر تعلق برصغیر کے انڈیا والے حصے یا پھر مشرقی پنجاب سے ہے۔
بپسی سدھوا کا ’’آئس کینڈی مین‘‘ اس لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے کہ بٹوارے کے دوران میں ہونے والی ابتدائی قتل و غارت کا الزام اب تک تقریباً تمام مشہور مورخین کی طرف سے پنڈی اور لاہور کے رہنے والے مسلمانوں پر لگایا جاتا ہے۔ جب کہ ہندوؤں اور سکھوں کے کردار کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اُردو میں لاہور کے 12 دروازوں اور خاص کر شاہ عالمی میں ہونے والے فسادات کو ’’آئس کینڈی مین‘‘ کے تقریباً دس سال بعد مستنصر حسین تارڑ صاحب نے اپنے ناول ’’راکھ‘‘ میں موضوع بنایا۔ تارڑ صاحب نے ناول کا نام ’’راکھ‘‘ بھی شاہ عالمی کے جلنے اور کئی ماہ بعد تک وہاں سے اُڑنے والی راکھ کے نام پر رکھا تھا…… لیکن اکالی دل کا فسادات میں کردار اور لاہور کے طاقت ور ہندوؤں کی طرف فسادات سے پہلے کی جانے والی تیاریوں کا ذکر پبسی سدھوا نے اپنے ناول میں کرکے اس فسادات کے موضوع کو ایک منفرد رُخ دیا جو تاریخ کی کتابوں میں تو کہیں نظر آتا ہے، لیکن اُردو فکشن میں اس کردار کو تقریباً نظر انداز کیا گیا ہے۔
بنیادی طور پر یہ ناول تقسیم سے پہلے کے حالات، تقسیم کے دوران میں ہونے والے دنگے فسادات اور تقسیم کے بعد لوگوں کی زندگی پر پڑنے والے نفسیاتی اثرات کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ جیسے جیسے آپ ناول پڑھتے جائیں گے، تو آپ کو اس کے پیچھے گہرا مطالعہ، تحقیق اور فسادات کو براہِ راست ایک متاثرہ شخصیت کے طور پر دیکھنے اور محسوس کر کے لکھنے والی پبسی سدھوا کا چہرہ اُبھرتا نظر آئے گا۔ ناول میں جہاں فسادات سے پہلے مختلف شناخت رکھنے والے، مختلف مذاہب، علاقوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک دوسرے کے ساتھ گہری وابستگی دکھائی گئی ہے، وہاں تقسیم کے دن جوں جوں قریب آتے ہیں، تو ہم ہر ایک کردار کے بدلتے موقف، بڑھتی نفرت اور اس نفرت کی زہر کو اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال ہوتے دیکھتے ہیں۔ وہ قسمیں اور وعدے جو کہ 47ء کے اوائل میں امام دین کے گاؤں میں رہنے والے مسلمان اور سکھ ایک دوسرے کی حفاظت کرنے کے لیے اُٹھاتے ہیں، وہ قسمیں اور وعدہ اکالی دل کے ٹڈیوں کے دَل کی طرح مشرقی پاکستان میں پھیلتے ہی وفا نہیں ہوتے۔ امام دین کے گاؤں جانے پر پیر پنڈو کے سکھ اور مسلمان ہر طرح کے دشمن کا اکٹھے مل کر مقابلے کرنے کے بارے میں پُرجوش ہوتے ہیں، لیکن جب اکالی دل پہنچتی ہے، تو رانا کے لفظوں میں ایک دل دہلا دینے والے ظلم کی کہانی سنائی دیتی ہے۔
لاہور میں رہنے والوں کی مختلف شناخت کے لوگ تقسیم سے پہلے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور تقسیم نے کس طرح ان دوستوں اور ایک جگہ پر رہنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کر دیا۔ ہولی، دیوالی، بیساکھی، ایسٹر اور عیدین جیسے تہوار لاہور میں رہنے والے لوگ اجتماعی طور پر مناتے تھے، لیکن تقسیم کے بعد سبھی ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ پنڈ پیرو کے وہ سکھ اور مسلمان جو تقسیم سے پہلے اپنی شناخت جٹ بتاتے تھے، تقسیم کے بعد سکھ اور مسلمان بن کر ایک دوسرے کے گلے کاٹتے پائے گئے۔ امام دین کو ایک سکھ کہتا ہے کہ بھائیوں کو ایک دوسرے کی حفاظت کرنے کے لیے قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں، لیکن پھر مذہبی شناخت دوسری تمام شناختوں سے زیادہ مضبوط شناخت کہلانے لگی۔ جناح باغ میں بیٹھ کر مختلف مذہبی شناختیں رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کو تحفظ دینے پر سنجیدہ نظر آتے ہیں، لیکن شاہ عالمی جلتے ہوئے ہم سکھوں اور مسلمانوں کے جتھوں کو ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ سے لیس دیکھتے ہیں۔ وہ ہندو جو لاہور سے ہجرت کر کے نہیں گئے، اُن کو اپنی شناخت کو بدلنا پڑا، نہ صرف اُنھوں نے اپنے نام بدل کر مسلمانوں والے نام رکھے، بلکہ مردوں کو تو ختنے کی رسم ادا کرنا پڑی، تاکہ ان کی مسلمانیت قابلِ قبول ہوجائے۔ اس وقت کلمہ سے زیادہ ختنہ مسلمانیت ثابت کرنے کی علامت سمجھا گیا۔
اکالی دل کا پنجاب کی تقسیم میں منفی کردار ایک ایسا موضوع ہے جسے ہمارے ہاں کم ہی موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ اُردو ادب میں بھی جنھوں نے تقسیم پر لکھا، اُنھوں نے سکھوں کے اجتماعی قتل و غارت کا ذکر تو ضرور کیا، لیکن اس کے پیچھے اکالی دل اور ماسٹر تارا سنگھ کے کردارکا ذکر بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوست محمد کو دیہات کا سکھ چوہدری بتاتا ہے کہ اکالی والے نیلی پگڑیاں پہنے گولڈن ٹیمپل میں گھوم رہے ہیں۔ دعا کرو وہ یہاں نہ آئیں، ورنہ وہ سب کچھ تباہ کر دیں گے۔ شاہ عالمی کے جلنے کا الزام ویسے تو مسلمانوں پر لگایا جاتا ہے، لیکن اس کے پیچھے ماسٹر تارا سنگھ کی مارچ کے اوائل میں پنجاب اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کا ذکر بہت کم ملتا ہے۔
ناول کے سولہویں باب میں ماسٹر تارا سنگھ لاہور میں اسمبلی کے باہر تقریر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم دیکھیں گے، خنزیر مسلمان کیسے پاکستان لیں گے! ہم آخری آدمی تک لڑیں گے۔ ہم اُنھیں دکھا دیں گے کہ کون لاہور چھوڑتا ہے۔ راج کرے گا خالصہ!
اس تقریر کے بعد لاہور میں فسادات کا آغاز ہوا۔ یہ اکالی دَل والے اس قدر خطرناک تھے کہ وہ جتھوں میں ٹڈیوں کی طرح وارد ہوتے تھے اور راستے میں آنے والے ہر گاؤں کو تباہ کر دیتے تھے۔ شاہ عالمی کے ہندو مسلمانوں کو راوی سے پار دھکیلنے پر تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ ہندو اپنے گھروں میں ڈینامائٹ کے ڈھیر لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں، تاکہ وہ مسلمانوں کو بھاٹی دروازے سے باہر دھکیل دیں…… لیکن آخر میں جو شاہ عالمی کے ہندوؤں کے گھروں سے ہوا وہ ایک الگ الم ناک داستان ہے۔ جس کا ذمے دار کسی ایک فریق کو ٹھہرانا زیادتی ہوگی۔
اس ناول پر امریکہ میں جنسیت زدہ ہونے کا الزام لگاکر اس کو میٹرک لیول کے سلیبس سے نکلوانے کی درخواست دی گئی تھی، جو رَد کر دی گئی۔ ناول میں موجود چند واقعات پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اُنھیں کسی خاص التزام سے کہانی کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا، بلکہ یہ تو وہ حقیقت ہے جو اس وقت کے معاشرے میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں میں پائی جاتی تھی۔ وہ واقعات چاہے والدین کے رومانس کے ذریعے دکھائے جائیں، آئس کینڈی مین کا آیا کے ساتھ رشتے میں دکھائے جائیں یا معذور لینی پر اس کے کزن کی بار بار دست درازی کے ذریعے دکھائے جائیں۔ یہ سب واقعات معاشرتی حقیقتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس قسم کی جنسی اور نفسیاتی کشمکش سے ہر طبقے اور علاقے کے رہنے والے لوگوں کا گزر ہوتا ہے۔ اسے جنسیت سے زیادہ یہ ایک فیمنسٹ نقطۂ نظر سے لکھا جانے والا ناول کہا جائے، تو بے جا نہ ہو گا۔ جہاں ایک طرف آیا اور پوچو کے ذریعے عورتوں پر ہونے والے جبر اور ظلم کی نشان دہی کی گئی ہے، تو وہاں لینی کی ماں اور دادی جیسی طاقتو ر خواتین بھی ناول کا حصہ ہیں۔
بظاہر یہ ناول بہت سے کرداروں پر مشتمل ہے جو کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں، لیکن لینی اس ناول کا مرکزی کردار ہے جو کہانی کے آغاز میں تقریباً چار سال کی ایک پولیو زدہ پارسی لڑکی ہے۔ لینی کا کردار بہت حد تک بپسی سدھوا کا اپنا کردار معلوم ہوتا ہے۔ تقسیم کے وقت ان کی اپنی زندگی تقریباً 9 سال تھی اور وہ خود بچپن میں پولیو سے متاثرہ تھی۔ ناول میں موجود تمام واقعات ایک بچی کی نظر سے دکھا کر شاید سدھوا یہ بتلانا چاہ رہی ہیں کہ وہ ان حقائق کو بغیر کسی جانب داری سے جیسے دیکھے ہیں، ایک بچے کی طرح اپنی تمام تر سچائی کے ساتھ ویسے بیان کر رہی ہیں۔
’’آئس کینڈی مین‘‘ کا کردار برصغیر کے رہنے والوں کی تقسیم سے پہلے کی بے فکری، چلبلا اور کھلنڈراپن دکھا رہی ہیں۔ آئس کینڈی مین کی ابتدا میں آیا کے ساتھ شرارتیں تقسیم سے پہلے کی خوشیاں ظاہر کرتی ہیں۔ امرتسر سے آنے والی ٹرین میں اپنی ماں کی کٹی ہوئی چھاتیوں کو دیکھنے کے بعد جو وحشت اس پر طاری ہوتی ہے، وہ تقسیم کی دل دہلا دینے والی صورتِ حال میں لوگوں کو نفسیاتی مریض بناتی ہے۔ ایسا نفسیاتی مریض جسے دوسروں کو تکلیف دے کر سکون اور خوشی محوس ہوتی ہے۔ یہی ہم آئیس کینڈی مین کو آیا کے ساتھ کرتے دیکھتے ہیں اور یہی کچھ اُدھر والے مسلمان اور اِدھر والے سکھ اور ہندو کر رہے تھے۔
آیا کا کردار تقسیم کے ایندھن کا رزق بننے والی عورتوں کا اجتماعی کردار ہے۔ وہ عورت چاہے کسی بھی مذہب اور کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتی ہو، سرحد کے دونوں جانب اس کے ساتھ ایک سا سلوک ہی ہوا۔ اس کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کو رنڈی بنا کر کوٹھے پر بٹھایا گیا جس سے وہ زندہ لاش بن گئی۔ بالکل ویسے ہی جیسے آیا ایک لاش طور پر ہیرا منڈی میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔
بپسی سدھوا کا یہ ناول ہماری ادبی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ تقسیم پر لکھے گئے ادبی شاہ کار کا ذکر اس ناول کے بغیر ناممکن ہو گا۔ جس گہرائی، روانی کے ساتھ تقسیم، اس کے اثرات، سکھوں کا کردار اور اس معاشرے میں رہنے والے لوگوں کی نفسیات سدھوا نے اس ناول میں ہمیں دکھائی ہے۔ وہ ان کے کہانی کہنے کے فن میں عبور اور مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔