ہماری زندگی کا ایک اور قیمتی سال 1444 ہجری اختتام پذیر ہوا اور نیا اسلامی سال 1445 ہجری شروع ہوچکا ہے۔
اسلامی سالِ نو کا آغاز انتہائی عظیم قربانیوں کا پیامبر ہے۔ دیگر مذاہب کے سالِ نو پر رقص و سرور کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں۔ شراب کے جام چھلکائے جاتے ہیں۔ نوجوانوں کو شباب میں مدہوش کیا جاتا ہے۔ موسیقی کے سُر اور تال پر خواتین کے تھرکتے ہوئے جسموں کی نمایش کی جاتی ہے۔ دنیا کا ایک بڑا طبقہ نئے سال کے جشن میں ناچ، گانے، شراب و شباب، فحاشی، عریانی اور جنسیت میں ڈوب جاتا ہے۔ شیطانیت اپنے عروج کے نقطۂ انتہا پر ہوتی ہے۔ عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہوتا ہے۔ جشن کایہ طریقہ یہود و نصارا کا تو ہوسکتا ہے، مگر اہلِ اسلام کا ہرگز نہیں۔ کیوں کہ اسلام تو اختتامی سال کے آخری اور نئے سال کے پہلے ہی دن سے قربانی و ایثار کادرس دیتا ہے۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
ہر نئے اسلامی سال کا آغاز ہمیں ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے عظیم واقعے کی یاد دلا کر اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر تنگی و دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے، اہلِ اسلام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جائیں، اُن پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا جائے، تو ایسے کڑے وقت میں وہ کفر کے ساتھ رواداری والا رویہ اپناتے ہوئے اپنے عقائد و نظریات میں لچک ہرگز پیدا نہ کریں، بلکہ اپنے دین و ایماں کی حفاظت میں اپنا سب کچھ لٹانا پڑے تو لٹا دیں…… لیکن اپنی استقامت میں لغزش پیدا نہ ہونے دیں۔
اہلِ اسلام مغربی تہذہب کے دلد ادہ نہیں بلکہ پروردۂ آغوشِ غیرت ہوتے ہیں، عصمت فروش نہیں…… بلکہ عفت و عصمت کے محافظ ہوتے ہیں۔ تہذیب و تمدن کے نام پر انسانیت کی دھجیاں نہیں اُڑاتے، بلکہ اخلاق کی اعلا قدروں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
خالقِ کائنات مالک ارض و سما، اللہ عز و جل نے جب سے زمین و آسماں کو پیدا فرمایا ہے، اُس وقت سے کتاب اللہ میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں۔ محرم الحرام بھی ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ اسلامی سال کے پہلے مہینے یعنی محرم الحرام کا دسواں روز یومِ عاشور کی قرآن و احادیث میں بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔
اِس روز کے متعلق مشہور ہے کہ دس محرم الحرام کو یوم عاشورہ اس لیے کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس دن اللہ ربّ العزت نے دس پیغمبروں (علیہ السلام) کو دس اعزازات عطا فرمائے۔ علمائے کرام کے مطابق اِسی روزحضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، حضرت ادریس علیہ السلام کومقامِ رفیع پر اُٹھایا گیا،حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری، سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اِسی روز ربِ کائنات نے اُن کو اپنا دوست (خلیل) بنایا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگِ نمرود سے بچایا گیا، حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہی واپس ملی، حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری ختم ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دریائے نیل سے راستہ ملا اور فرعون غرق کردیا گیا، اسی روز سیدنا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالے گئے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھا لیا گیا، محبوبِ خدا، سرورِ انبیا، احمد مجتبیٰ، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور تخلیق ہوا۔
اسی یومِ عاشورہ کو امامِ عالیٰ مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جامِ شہادت نوش کیا اور اس طرح ظالم و مظلوم، حق و باطل کے درمیان اس عظیم معرکہ کو کربلا کے نام سے تاریخ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا۔
اسلام ایثار کی تعلیم دیتا ہے۔ حتیٰ کہ ختم ہوتا ہوا اسلامی سال حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہم السلام کی قربانیوں کی یاد تازہ کرتا ہے۔ نئے اسلامی سال کا پہلا دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عاشورہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے رفقا کی شہادت کی یاد دلوں میں زندہ کرکے، اسلام کی سربلندی کے لیے قربانی کا جذبہ بیدار کرتی ہے۔
قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشادِ باری تعالا ہے: ’’اللہ کے ہاں تو اُنھی لوگوں کا درجہ بڑا ہے، جو ایمان لائے اور جنھوں نے اُس کی راہ میں ہجرت کی اور جان و مال سے جہاد کیا۔ اُن کا ربّ اُنھیں اپنی رحمت اور خوش نودی اور ایسی جنتوں کی خوش خبری دیتا ہے، جہاں اُن کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والے عیش کے سامان ہیں، اُن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یقینا اللہ تعالا کے پاس خدمات کا صلہ دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔‘‘ (التوبہ، آیت 19 تا 21)
سچ بات تو یہ ہے کہ ہجرت و شہادت جیسے معیاری اوصاف کے ذریعے ہی سے اللہ تعالا او ر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی محبت، دینِ اسلام کی دعوت و اشاعت، برائیوں کے اِزالہ کے لیے پیہم کوشش، فکرِ آخرت اور دنیا سے بے رغبتی ممکن ہے۔ جس بندہ مومن کے اندر یہ اوصاف پروان چڑھیں، اُسے دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب ہوگی۔
آنے والا ہر نیا اسلامی سال زندہ دلوں پر صراط المستقیم پر چلنے کی دستک دیتا ہے اور یہ جائزہ لیتا ہے کہ ہم اللہ تعالا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پسندیدہ اعمال و افعال اور اسلام کی سربلندی کے لیے کس قدر جذبہ رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اچھی عادات اور مثالی اخلاق کو اپنا شعار بنانا چاہیے، سماجی برائیوں سے اجتناب اور بری عادات کو ترک کرنا چاہیے، تاکہ غیر مسلم بھی ہمارے عمدہ اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام قبول کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔