کیا پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہنے والے صرف ’’افغان‘‘ ہیں……؟
اس سوال کا جواب ہے: ’’نہیں…… بالکل نہیں!‘‘
تو پھر ریاست اور حکومتِ پاکستان کے حالیہ فیصلے پر سب سے زیادہ تشویش افغانیوں کو کیوں ہے……؟ اس معاملے پر افغانوں اور افغان حکومت کی تشویش تو فطری ہے، لیکن پاکستانی بھی اس معاملے پر دو حصوں میں تقسیم ہیں۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
ایک طبقے کا خیال ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ خوش آیند ہے۔ کیوں کہ اگر کسی پاکستانی کو کسی دوسرے ملک میں بغیر دستاویزات رہنے کی اجازت نہیں، تو پھر پاکستان میں کسی غیر ملکی کو یہ اجازت کیوں کر دی جاسکتی ہے؟
دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ افغانستان اور پاکستان کا معاملہ اتنا آسان نہیں۔ کیوں کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں، جو 50 سال سے زاید عرصہ پاکستان ہی میں رہ رہے ہیں، اور اُن کی تیسری نسل اب جوان ہے۔ لہٰذا اُن کو پاکستانی شہری تسلیم کیا جائے۔
قارئین! یہ معاملہ جب حکومتی ایوانوں سے میڈیائی دنیا تک پہنچا، تو کیا پاکستانی اور کیا افغانی…… ہر کسی نے اپنی ذہنی استعداد کو بروئے کار لاکر اچھے برے خیالات کا اظہار کیا۔ بالآخر حکومتِ پاکستان نے مجبوراً وضاحت جاری کردی کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے اخراج کا فیصلہ صرف ’’افغانیوں‘‘ کے حوالے سے نہیں۔ لہٰذا جو لوگ اس معاملے کو لے کر پاکستان اور افغانستان میں نفرتوں کو ہوا دینا چاہتے ہیں، اُن کی مذموم خواہشات کی تکمیل ناممکن ہوگئی۔
افغانیوں کا اس معاملے میں ذکر اس لیے زیادہ ہورہا ہے کہ اس فیصلے سے سب سے زیادہ وہی متاثر ہوں گے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اِس وقت 40 لاکھ سے زاید افغانی رہایش پذیر ہیں…… جن میں صرف 17 لاکھ کے قریب رجسٹرڈ مہاجر ہیں۔ باقی میں سے کچھ کے پاس ویزے، زاید المعاد ویزے یا تذکرے وغیرہ موجود ہیں…… جب کہ تقریباً 5 لاکھ ایسے افغانی ہیں…… جن کے پاس کسی بھی قسم کی شناختی دستاویز موجود نہیں۔ لہٰذا اس فیصلے کی زد میں سب سے پہلے وہی لوگ آئیں گے…… وہ بھی صرف افغانستان کے نہیں بلکہ کسی بھی ملک کا شہری اگر پاکستانی میں غیر قانونی طور پر رہ رہا ہے، تو اُسے ملک بدر کیا جائے گا۔ یہ معاملہ تو پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو خواہ مخواہ افغانیوں تک محدود کرنا اور اس معاملے کو لے کر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنا بالکل مناسب نہیں۔
ہمارے افغانی بھائیوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اور افغانستان دو الگ ممالک ہیں۔ اگر ڈیورنڈ لائن کے فرسودہ معاملے میں آپ اٹک تک علاقے پر اپنا دعوا برقرار رکھ کر پاکستان کے اس حصے کو اپنا ملک سمجھ رہے ہیں، اور اسی بنیاد پر یہاں جو کرنا چاہیں، کرتے پھریں، تو یہ بالکل مناسب نہیں۔
ڈیورنڈ لائن کا معاملہ اب حقیقی سے زیادہ سیاسی ہے۔ کیوں کہ حقیقی طور پر تو پاکستان نے چمن سے چترال تک سرحد کے اکثریتی حصے پر خاردار باڑ لگا کر بند کردیا ہے۔ اب اکتوبر کے بعد کوئی بھی افغانی بغیر ویزے کے پاکستان میں داخل نہیں ہوسکے گا۔
ان کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایران میں بھی افغانی مہاجرین رہ رہے ہیں۔ کیا ان کی زندگی وہاں ایسی ہے، جیسی یہ لوگ پاکستان میں جی رہے ہیں؟
کیا ایران میں کسی افغانی کو زمین خریدنے، کیمپ سے باہر رہنے کی اجازت ہے؟ برعکس اس کے اگر پاکستان میں دیکھا جائے، تو افغانی لوگ خواہ اُن کے پاس قانونی دستاویزات ہوں یا نہ ہوں، وہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے کاروباروں پر قابض ہیں اور موج مستی والی زندگی گزار رہے ہیں۔
غیر قانونی تارکین تو کسی بھی ملک میں کہیں پر بھی ہوں، ہر حوالے سے غیر قانونی ہی ہوتے ہیں۔ اگر میزبان ملک مہربانی نہ فرمائے، تو کسی بھی وقت اُس کو ملک بدر کیا جاسکتا ہے۔ البتہ قانونی طور پر رہنے والوں کے معاملات الگ ہوتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں بھی قانونی طور پر بطورِ ’’مہاجرین‘‘ رہنے والوں کو کیمپوں تک محدود کیا جاسکتا ہے…… لیکن ایسا ہوگا نہیں۔ کیوں کہ ڈھیر سارے فیصلے جو ہونے چاہئیں، نہیں ہوتے…… اور جو نہیں ہونے چاہئیں، وہ ہوتے رہتے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ یکم اکتوبر کے بعد کیا ہوتا ہے؟ البتہ یہ دعا ہے کہ اس معاملے میں جو بھی فیصلہ ہو، اللہ کرے کہ وہ دونوں بھائی ملکوں میں امن و خوش حالی کاسبب ہو، نہ کہ بدامنی اور بدحالی کا سبب بنے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔