پاکستان میں اِس وقت 8 کروڑ سے زاید لوگ سوشل میڈیا کے صارف ہیں، جو زیادہ تر فیس بُک، واٹس ایپ، انسٹا گرام، ٹویٹر، یوٹیوب اور ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اچھی چیز ہے۔ آپ پوری دنیا سے جڑے رہتے ہیں۔ دنیا بھر کے اہم واقعات، حالات کی تبدیلیوں، اہم ایجادات اور دریافتوں سے باخبر رہتے ہیں، مگر صرف اتنا ہی کافی نہیں۔ اس ٹیکنالوجی کو کاروباری مقاصد یا روزگار کے لیے اپنا کر مالی فایدہ حاصل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
اب تو بڑے اداروں نے اپنے معاملات آن لائن چلانا شروع کر دیے ہیں۔ بینکنگ کا پورا نظام آن لائن ہوگیا ہے۔ آن لائن تجارت بھی عروج پر ہے۔ اب آپ کو شاپنگ کے لیے بازار یا مارکیٹ جانے کی ضرورت نہیں۔ آن لائن شاپنگ کی سہولت موجود ہے۔ اپنی مرضی کی چیز منتخب کر کے آرڈر کر دیں۔ کوریئر کے ذریعے سامان آپ کے دیے گئے پتے پر پہنچ جائے گا۔ آپ کے پاس کیش آن ڈلیوری کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ ایک ہاتھ سے سامان لیں اور دوسرے ہاتھ سے قیمت کی ادائی کریں۔
دیکھا جائے تو کمپیوٹر نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ لوگ گھر بیٹھے آن لائن کام کرکے لاکھوں روپے مہینا کما رہے ہیں۔ جتنا کام کریں گے، اُس کا پورا پورا معاوضہ مل جائے گا۔ اب تو ایسے جدید ترین موبائل فون بھی آ گئے ہیں، جنھیں آپ ’’مِنی کمپیوٹر‘‘ کَہ سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کے تمام فیچر اور فنکشن اُن میں موجود ہوتے ہیں۔
مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ ہمارے ہاں کتنے فی صد لوگ ہیں جو آن لائن کاروبار سے وابستہ ہیں۔ سروے کرکے دیکھ لیں۔ ایک فی صد لوگ بھی آن لائن کاروبار نہیں کرتے۔ یہ کس قدر المیہ ہے کہ ہماری کل آبادی کا چالیس فی صد آن لائن رہتا ہے، مگر آن لائن رہ کر اس سے مالی منفعت حاصل کرنے والے ایک فی صد بھی نہیں ۔ یہ قصور کس کا ہے……؟
ہمارے نوجوان جو کُل آبادی کا 60 فی صد ہیں…… بے تحاشا انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں۔ 24 میں سے 12 تا 16 گھنٹے آن لائن رہتے ہیں، مگر اکثریت اس قابل بھی نہیں کہ اپنی جیب سے انٹر نیٹ کا پیکیج ہی لگوا لے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، مگر ہمارے نوجوان خوابوں کی دنیا سے ہی باہر نہیں نکل رہے۔ رات رات بھر جاگنا اور صبح دیر سے بیدار ہونا اُن کی عادت بن چکی ہے۔
ہمارے ہاں تعلیم کا مقصد شعور حاصل کرنا یا شخصیت کو سنوارنا اور نکھارنا نہیں۔ نہ والدین اپنے بچوں کو اس مقصد کے لیے تعلیم دلواتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرکے ان کی اولاد سلیقہ شعار بن جائے گی۔ ہمارے ہاں 90 فی صد لوگ اچھی نوکری کے حصول کے لیے اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں اور نوکری بھی سرکاری ہونی چاہیے، تاکہ بڑھاپے میں پنشن لگ جائے۔ حکومت کے پاس اس قدر اسامیاں نہیں ہوتیں کہ تمام لوگوں کو ملازمتیں دے سکے۔ چناں چہ یہ نوجوان مایوس ہو کر بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جو شخص موبائل چلالیتا ہے، اس کے لیے کمپیوٹر سیکھنا مشکل نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کی جائے۔ اُنھیں بتایا جائے کہ صرف سرکاری نوکری ہی منزل نہیں۔ روزگار تو وہ گھر بیٹھے بھی کماسکتے ہیں…… اور کام کے لیے وقت بھی اپنی مرضی سے صرف کریں۔ انسٹا گرام، فیس بُک، یُو ٹیوب، ٹِک ٹاک اور واٹس ایپ کی جان چھوڑیں۔ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
گذشتہ سال 25 اکتوبر بروزِ منگل کو واٹس ایپ کی سروس قریباً دو گھنٹے کے لیے عارضی طور پر بند ہوئی، تو یوں لگا جیسے کوئی بھونچال آگیا ہو۔ ہوا یوں کہ منگل کے روز صارفین کو تقریباً 11 بج کر 50 منٹ پر واٹس ایپ کے استعمال میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سب سے پہلے واٹس ایپ کے گروپس میں صارفین پیغامات بھیجنے سے قاصر ہوئے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین کی جانب سے اس مسئلے کی نشان دہی کی گئی اور پاکستان سمیت دنیا بھر سے لوگوں نے بتایا کہ واٹس ایپ گروپس میں میسج نہیں جارہے۔ جب کہ انفرادی طور پر صارفین کو چیٹنگ کرنے میں مسئلہ ہورہا ہے۔ علاوہ ازیں وہ صارفین جو واٹس ایپ کا ڈیسک ٹاپ ورژن استعمال کر رہے ہیں، اُنھیں فون سے ایپ کنیکٹ کرنے میں بھی مسئلے ہورہے ہیں۔
اس کے بعد گویا عجیب طوفان برپا ہوگیا جیسے کوئی عزیز ترین چیز کھو گئی ہو۔ جن کو بر وقت پتا چل گیا، وہ تو صبر شکر کرکے بیٹھ گئے، مگر اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو بار بار اپنے فون آف اور آن کر رہے تھے۔ گویا واٹس ایپ اُن کے لیے آکسیجن تھی، جس کی عدم موجودگی میں ان کا دم گُھٹ رہا تھا۔ اُس دن کافی لوگ ایسے تھے جنھیں کئی دنوں بعد اپنے گھر والوں یا پڑوسیوں سے ڈائریکٹ بات کرنے کا موقع ملا اور اُنھیں پتا چلا کہ ہمارے گھر میں یا آس پاس کچھ اور لوگ بھی رہتے ہیں جن میں سے کچھ بہت اچھے بھی ہیں۔
آج کل اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ گھر کے اندر بھی ایک ہی کمرے میں موجود چھے سات افرادِ خانہ بیٹھے ہوتے ہیں، مگر سبھی ایک دوسرے سے لاتعلق اور اجنبی بنے ہوئے اپنے اپنے موبائل فون میں مگن ہوتے ہیں۔ ہم وہ فارغ قوم بن چکے ہیں جس کے پاس سوشل میڈیا پر ضائع کرنے کے لیے وقت ہی وقت ہے، مگر ایک دوسرے کے لیے پانچ منٹ بھی نہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کی رسیا اس قوم کی مثبت سمت میں رہنمائی کی جائے۔ اسی سوشل میڈیا کو اُن کے لیے کمائی کا اوزار بنا دیا جائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے حکومتی اور پرائیویٹ اداروں کو آگے بڑھنا چاہیے۔ سیمیناروں اور ورکشاپوں کا انعقاد کرنا چاہیے۔ حکومت نوجوانوں کو آسان اقساط پر اچھی کوالٹی کے لیپ ٹاپ مہیا کرے۔ ہر شہر اور قصبے میں تربیتی ادارے قائم کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ جاب یا کام دینے والے اداروں اور فرموں تک اُن نوجوانوں کی رہنمائی اور رسائی یقینی بنائے۔ اِس سے نہ صرف بے روزگاری میں کمی لانے میں مدد ملے گی، بلکہ نوجوان بھی اپنا وقت مثبت کاموں میں صرف کرکے ذہنی آسودگی حاصل کریں گے اور بے راہ روی سے بھی بچ جائیں گے۔ یہی نہیں…… وہ خود بھی خوش حال ہوں گے، اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال کر ملک کو بھی خوش حال بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
بس ضرورت درست سمت کے تعین کی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔