تبصرہ نگار: عمران اعوان کورش 
’’فارن ہائیٹ 451‘‘ دراصل ’’رے بریڈ بری‘‘ (Ray Bradboury) کا ناول ہے، جسے شائع کیا ہے ’’سٹی بک پوائنٹ‘‘ نے اور مترجم ہیں فاطمہ رحما صاحبہ، جو خود اس ناول کے بارے میں اپنی رائے کچھ اس انداز سے پیش کرتی ہیں: ’’70 سال پہلے لکھا گیا ناول، مصنف کے لیے محض ایک تصوراتی دنیا تھی۔ پر اَب 2030ء میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فارن ہائیٹ 451 سے زیادہ حقیقت پسند ناول کوئی نہیں۔‘‘
اس ناول میں سائنس کو اوجِ کمال پر دکھایا گیا ہے اور انسان ایک ایسی حقیقت میں زندہ ہیں جو کہ خود ہی گماں ہے۔ مشینی کتے، ورچوئل رئیلٹی تھیٹر، ہر وقت کے ٹی وی ڈراموں میں خود کو محسوس کرتی عورتیں…… یہ سب آج کی دنیا کے بہت قریب ہے۔ اس لیے آپ کو مصنف کی بصیرت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔
یہ ناول ’’ڈسٹوپین ناول‘‘ کی کیٹیگری میں آتا ہے، یعنی اُن ناولوں میں جن میں ایک بُرا معاشرہ یا مروجہ اخلاقیات کے منافی اقدار کا حامل معاشرہ ہو۔
اس ناول میں کتاب دشمنوں کی ایک سوسائٹی دکھائی گئی ہے……جنھیں سوچ سے نفرت ہے اور وہ جذبات کو اپنے لیے مہلک گردانتے ہیں۔ وہ ایک میکانکی معاشرے میں زندہ ہیں، جہاں رومان و جذبات کی کوئی جگہ نہیں۔
ناول کی ’’سیٹنگ‘‘ سادہ ہے، اور کوئی خاص گنجلک پن نہیں۔ دور آج سے کئی سو سال بعد کا ہے، جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی تقریباً حکم ران ہیں اور جذبات و احساسات عنقا ہونے کی ڈگر پر ہیں، جب کہ ملک حالتِ جنگ میں ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
دیگر متعلقہ مضامین:
ملا نصیر الدین (تبصرہ)  
ودرنگ ہائیٹس (تبصرہ)  
شارلٹ برونٹے کا ناول ’’جین آئر‘‘ (تبصرہ)  
البرٹ کامیو کا ناول ’’اجنبی‘‘ (تبصرہ)  
کلیلہ و دِمنہ (تبصرہ)  
بین الاقوامی سطح پر ’’بین‘‘ (Ban) کیا جانے والا یہ ناول اس شعر کا صحیح ترجمان ہے کہ
ہے دِل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اور یہ بھی کہ محبت کی کونپل انتہائی نامساعد حالات میں بھی پھوٹ سکتی ہے اور اپنا لوہا منوا سکتی ہے۔ اب ناول سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں:
’’میرا ماہرِ نفسیات جاننا چاہتا ہے کہ مَیں جنگلوں میں کیوں گھومنے جاتی ہوں اور پرندوں کو دیکھتی ہوں اور تتلیاں اکٹھی کرتی ہوں؟مَیں آپ کو اپنی تتلیاں دکھاؤں گی۔‘‘
’’اُنھیں ایسے ہی حقائق اور شان دار معلومات سے بھر دو کہ وہ کچھ اور سوچنے کے بارے میں نہ سوچیں۔اُنھیں احساس ہوگا کہ وہ بھی کوئی کام کر رہے ہیں بغیر حرکت کے۔‘‘ (آج جس طرح ہم پر ڈیٹا اور انفارمیشن کی برسات ہو رہی ہے، یہ بات کافی قرینِ قیاس ہے۔)
’’سچ سچ رہتا ہے اور بحران کے بعد بھی سچ ہی رہتا ہے۔جن کے خیالات شریف ہوں، وہ کبھی اکیلے نہیں رہتے۔‘‘
ناول کے ہیرو مونٹاگ سے ہمیں جانے اَن جانے میں ہم دردی ہوجاتی ہے، جو محبت کے زیرِ اثر ہی سہی اس بے حس و بے خیال معاشرے میں سوچنے کا جرم کرتا ہے اور پڑھنے کی جسارت بھی۔
قارئین! مَیں یہ ناول پڑھ کر ’’رے بریڈ بری‘‘ کی مستقبل بینی کا قائل ہوگیا ہوں اور یہ بھی سمجھ آگیا کہ اسے بین کیوں کیا گیا تھا۔ اسے پڑھ کر وحید احمد بھی یاد آئے، جو کہتے ہیں کہ ’’دنیا ریوڑ کی طرح پاؤں سے چلتی ہے، نگاہوں سے نہیں چلتی!‘‘
ترجمہ کہیں کہیں بے ربط ہے، لیکن مجموعی طور پر ایک اچھی کوشش ہے۔ میری طرف سے یہ ناول "Highly recommended” ہے۔
مولا آپ کو خوش رکھے۔ جیندے وسدے رہو!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔