’’بلینک ورس‘‘ کو اُردو میں نظمِ معریٰ کہا جاتا ہے۔
’’اصنافِ نظم و نثر‘‘ از ڈاکٹر علی محمد خاں، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کے صفحہ نمبر 133 پر اس حوالہ سے درج ہے: ’’معریٰ یا معرا کے لغوی معنی برہنہ یا خالی کے ہیں مگر شاعری کی اصطلاح میں نظم معریٰ ایسی صنفِ نظم کو کہتے ہیں جس کے تمام مصرعوں کے ارکان تو یکساں ہوں مگر ان میں قافیے کا التزام نہ رکھا گیا ہو۔‘‘
بحرالفصاحت (حصۂ اول) از مولوی نجم الغنی (رام پوری) کے صفحہ نمبر 289 پر اس حوالہ سے رقم ہے: ’’بلینک ورس‘‘ کو ابتدا میں غیر مقفیٰ کہا گیا۔ اب اسے ’’نظمِ معریٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک ہی بحر میں بلا ردیف و قافیہ اشعار پر مبنی ہوتی ہے۔ اس انداز میں ہر صنفِ سخن لکھی جاسکتی ہے۔ غزل ہے تو اس کو معریٰ غزل کہیں گے۔‘‘
اس طرح ’’ادبی اصطلاحات‘‘ از پروفیسر انور جمال کے صفحہ نمبر 173 پر ’’نظمِ معریٰ‘‘ (Blank Verse) کے زیرِ عنوان درج ہے: ’’نظمِ معریٰ، نظم کی وہ قسم ہے جس میں تمام مصرعے ایک مخصوص بحر میں ہوتے ہیں۔ البتہ ردیف اور قافیے کی قید سے مکمل آزادی ہوتی ہے۔‘‘
عتیق اللہ اپنی کتاب ’’ادبی اصطلاحات کی وضاحتی فرہنگ‘‘(مطبوعہ ’’فکشن ہاؤس‘‘، سنہ اشاعت 2019ء) کے صفحہ نمبر 328پر "Blank Verse” کے ذیل میں رقم کرتے ہیں: ’’معرا کی سب سے پہلی مثال سرّے نے 1540ء میں قائم کی تھی۔ اس نے یہ تجربہ ورجل کی Aeneid جیسی کلاسیکی اور شہرۂ آفاق نظم کے منظوم، انگریزی ترجمے کے دوران کیا کہ شعر میں فکر یا موضوع کی تاثیر بھی اصل کی صورت میں قائم رہ سکے۔ غالباً اس نے یہ تکنیک Aeneid کے اُس منظوم اطالوی ترجمے 1539سے اخذ کی تھی جسے مولزا نے انجام دیا۔‘‘
البتہ پروفیسر انور جمال کا دعوا ہے : ’’نظمِ معریٰ‘‘ مغربی ادبیات میں 1547ء میں متعارف ہوئی۔‘‘ (’’ادبی اصطلاحات‘‘، صفحہ نمبر 173)
ڈاکٹر علی محمد خاں و ڈاکٹر اشفاق احمد ورک بھی ’’اصنافِ نظم و نثر‘‘ میں مانتے ہیں کہ ’’یہ صنف انگریزی ادب سے اُردو میں آئی ہے۔ انگریزی میں اِسے بلینک ورس (Blank Verse) کہا جاتا ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر 133)
اس طرح ’’ادبی اصطلاحات کی وضاحتی فرہنگ‘‘ میں یہ بھی درج ملتا ہے: ’’معرا کا استعمال صنفِ ڈراما میں ٹی سیکول اور تھامس نارٹن (1584-1532) نے Gorboduc نام کے اس المیے میں کیا جس کا شمار انگریزی کے اولین المیوں میں کیا جاتا ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر 329)
اسی تحیر میں آگے کے پیراگراف میں عتیق اللہ درج کرتے ہیں: ’’ملٹن کی Paradise Lost، عہدِ الزبیتھ کے ڈراما نگاروں، بہ شمول شیکسپیر، رومانوی اور جدید شعرا کی بیش تر نظمیں معرا ہیں۔‘‘ (صفحہ نمبر 329)
پروفیسر انور جمال کے بقول: ’’ملٹن کی مشہورِ زمانہ کتاب Paradise Lost میں یہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ شیکسپیئر کے عہد میں ’’نظمِ معریٰ‘‘ کا فن رواج پاچکا تھا۔ (’’ادبی اصطلاحات‘‘، صفحہ نمبر 174)
عتیق اللہ آگے یہ بھی درج کرتے ہیں: ’’ڈرائڈن کا المیہ All for Loveمعرا کی ایک عمدہ مثال ہے۔‘‘ (صفحہ 329)
نظمِ معریٰ کی مثال کے طور پر نجم الغنی (رام پوری) نے ’’بحر الفصاحت‘‘ (حصۂ اول) کے صفحہ نمبر 116پر مولوی محمد حسین آزادؔ کی نظم کو نقل کیا ہے، جسے من و عن یہاں پر بھی نمونہ کے طور پر درج کیا جاتا ہے:
ہنگامہ ہستی کو
گر غور سے دیکھو تم
ہر خشک و ترِ عالم
صنعت کے تلاطم میں
جو خاک کا ذرّہ ہے
یا پانی کا قطرہ ہے
حکمت کا مرقع ہے
جس پر قلمِ قدرت
انداز سے ہے جاری
اور کرتا ہے گلکاری
ایک رنگ کہ آتا ہے
سو رنگ دکھاتا ہے
اور دیکھنے والوں کی
آنکھیں تو کھلی ہیں
خر مہرۂ رنگیں یا
بلّور کے ٹکڑے ہیں
ہر لحظہ و ہر ساعت
قدرت کے تماشے ہیں
عالم میں پڑے ہوتے
پر ان کی نہیں پروا
ہر گز کہ یہ سب کیا ہے
اور اس کا سبب کیا ہے؟
………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔