دو تین سال قبل سیدو شریف جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں عالی شان پلازے دیکھ کر عجیب سا احساس ہوا۔ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ افسر آباد کی حدود میں کسی دکان کا تصور تک محال تھا اور اب انہی حدود میں میڈیکل کالج کے علاوہ کئی پرائیویٹ اسپتال اور کمرشل پلازے بنے ہیں۔ افسر آباد مسجد کے قریب تو پورا بازار بن چکا ہے۔ اسی مسجد میں ہم بچپن میں شیخ الحدیث والقرآن جناب محمد افضل خان صاحب آف شاہ پور سے خلاصہ و منییٰ پڑھا کرتے تھے۔ سیدو اسپتال کے سامنے سڑک کی دوسری طرف جو مارکیٹیں بنی ہوئی ہیں یہاں پر خالی میدان ہوا کرتا تھا جس میں عموماً سردیوں کے موسم میں کوچی لوگ اونٹوں کے قافلوں کے ساتھ ڈیرا جماتے تھے اور گڑ کے انبار لگا کر بیچا کرتے تھے۔ عقبہ روڈ اور مرغزار روڈ کے سنگم پر بنے ہوئے تکونی میدان میں سوختنی لکڑی فروخت کے لیے رکھی جاتی تھی۔ تار گھر کے آس پاس کا علاقہ بھی خالی تھا اور یہاں پر پانی کی ایک بڑی ٹنکی بنی ہوئی تھی جس سے افسر آباد کے رہائشی گھریلو استعمال کے لیے پانی لے جاتے تھے۔ افسر آباد ہی کی رہنے والی ایک غریب خاتون ہمارے ہاں پانی لاتی تھی۔ روزانہ آٹھ گھڑے پانی کے عوض بے چاری کو مہینہ کے دو روپے ملتے تھے۔
سیدو بازار میں بہت کم دکانیں تھیں۔ ان میں قصاب کی دو دکانیں تھیں۔ شریف اللہ ماما بڑا گوشت بیچا کرتے تھے اور حضرو سے آئے ہوئے فیض محمد قصاب بکروں کا گوشت فروخت کرتے تھے۔ دراصل اُن کے پاس شاہی درباروں کو چھوٹا گوشت فراہم کرنے کا ٹھیکا تھا اور اُن کی ضرورت سے جو گوشت زائد ہوتا وہ عام فروخت کے لیے رکھا جاتا تھا۔ مذکورہ قصاب خاندان نے بہت پیسہ کمایا اور پھر اینٹوں کی بھٹی لگا کر بہت بڑا سرمایہ کمایا۔ پھر ایسا وقت آیا کہ مذکورہ خاندان صرف درباری ضرورت کے لیے ایک آدھ بکرا ذبح کرتا اور عام فروخت بند کر دی۔

سیدو شریف کی ایک نایاب تصویر جس میں سیدو بابا کا روزہ صاف نظر آ رہا ہے۔ (Photo: Flickr)

سیدو شریف بازار میں اُن دنوں موچیوں کی تین، دھوبی کی تین اور کپڑوں کی بھی تین ہی دکانیں تھیں۔ البتہ حجاموں کی دکانیں پانچ تھیں۔ کیوں کہ باہر سے آنے والے لوگ دارالخلافہ پہنچ کر دوبارہ حجامت بنواتے اور اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھ کر سرکاری دفاتر میں جاتے۔ کریانے کی مشہور دکان سیٹھ عبدالرحمان مرحوم کی تھی جو جامع مسجد سیدو بابا کے شمالی پہلو میں واقع تھی۔ دو تین دکانیں اور بھی تھیں لیکن سیٹھ کی دکان پر خریداروں کا ہر وقت ایک ہجوم رہتا، کیوں کہ اُن کا کاروبار ایمان داری اور مناسب منافع کے اصول پر چلتا تھا۔ درزیوں میں ثانی گل، اُن کے دو بیٹے عظیم اللہ اور علیم اللہ اور ایک بزاز عبدالمولیٰ مشہور تھے۔ اعلیٰ طبقے "ملاکنڈے اُستاد” سے کپڑے سلواتے تھے جن کے پاس سرکاری افسروں کی یونیفارم کا ٹھیکا بھی تھا۔
موچیوں میں شیر امان اور سید کریم نئے جوتے بناتے تھے اور رستم ماما پرانے جوتے مرمت کرتے تھے۔ بعد میں وہ بھی عموماً بچوں کے لیے نئے چپل تیار کرتے تھے، یہ تینوں ریاستی فوج میں ملازمت بھی کرتے تھے۔
سیدو بابا کی مسجد کے قریب کی تین دکانوں میں رحم دل حاجی کی دکان بہت مشہور تھی۔ ہم جب چھوٹے تھے، تو اُن ہی کی دکان سے سودا سلف خریدتے تھے۔ اسی مسجد کے مغربی گیٹ کے قریب ایک مولوی نما صاحب سرمہ بیچا کرتے تھے۔ ان کا اصلی نام تو ہمیں معلوم نہیں مگر لوگ اُس کو "چمڑو اُستاد” کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ چھوٹے بچے اُن کو بہت تنگ کرتے تھے اور اُن کو مختلف ناموں سے پکارتے تھے۔ والئی سوات کو معلوم ہوا، تو انھوں نے حکم جاری کیا کہ اگر کسی نے آئندہ موصوف کو چھیڑا، تو اس کو پانچ روپیہ جرمانہ دینا ہوگا۔ اسی طرح بے چارے کی جان اُن ننھے شیطانوں سے چھوٹ گئی۔
ایک دوپہر کو ہم نے دیکھا کہ سیدو اسپتال کے سامنے کھلے میدان میں بہت بھیڑ لگی ہوئی ہے، یہ جگہ ہمارے گھر کے عقب سے صاف نظر آ رہی تھی، کیوں کہ ہمارا گھر اس میدان سے کافی بلندی پر بنا ہوا تھا۔ ہم بھی اس ہنگامے کی وجہ جاننے کے لیے اس میدان کی طرف دوڑ کر چلے گئے۔ معلوم ہوا کہ خوازہ خیلہ میں کسی خاتون نے اپنے گھر میں بری نیت سے گھسنے والے ایک شخص کو گولی مار کر قتل کیا ہوا ہے۔ سرکاری حکام کا خیال تھا کہ ہوسکتا ہے قتل کسی اور نے کیا ہو اور یہ خاتون اُس شخص کے بچانے کے لیے اپنے سر پہ الزام لے رہی ہو۔ اُدھر عورت قسمیں کھا رہی تھی کہ وہ گھر میں بالکل اکیلی تھی اور اُس کا شوہر گھر سے بہت دور کسی کام سے گیا ہوا تھا۔ والئی سوات نے حکم دیا تھا کہ اس عورت کا امتحان لیا جائے۔ اس طرح کہ اس کو سیون ایم ایم کی جرمن رائفل دے کر اس کی نشانہ بازی اور مہارت کا اندازہ لگایا جائے۔
سیکڑوں کی تعداد میں لوگ یہ تماشا دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ خاتون کے سامنے مناسب فاصلے پر نسوار کی شیشے والی ڈبیا رکھ دی گئی۔ تھانیدار سیدو شریف نے اُس کو سیون ایم ایم کی رائفل اور پانچ کارتوس دے دیے۔ اُس نے بڑے ماہرانہ انداز میں میگزین لوڈ کرکے ایک گولی فائرنگ چیمبر میں چڑھا دی۔ پھر بہت اطمینان سے ڈبیا کا نشانہ لے کر گھوڑا دبا دیا۔ لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب نشانہ ٹھیک اپنی جگہ پر لگا اور گولی سے ڈبیا ریزہ ریزہ ہوگئی۔ کئی آدمیوں نے اُس بہادر اور غیرت مند خاتون کو انعامات سے نوازا اور اس طرح اسے باعزت بری کر دیا گیا۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔