وہ ایک عام سا لڑکا تھا۔ کلین شیوڈ، بھوری آنکھوں میں ہلکے سُرخ رنگ کے ڈورے، جیسے ہلکے خمار کا نتیجہ ہوں یا ابھی ابھی نیند سے اُٹھا ہو، اوسط قدو قامت اور تھوڑا سا دُبلا پن لیے ہوئے، پہلی بار دفتر میں آیا۔ ہمارے دفتر کے ایک کلرک جو اپنی مخصوص تربیت اور جبلی خوبیوں کی وجہ سے ہر آنے والے کی حیثیت کے مطابق اس کا خیر مقدم کرتے تھے، نے آگے بڑھ کر نووارد کو گلے لگایا۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ نووارد کوئی اجنبی نہیں ہے۔ ہمارا تعارف کراتے ہوئے انہوں نے مہمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہ شمس ہیں، غازی خانے کے رہنے والے ہیں۔ اس لڑکے کے ہاتھ نرم اور صاف دھلے ہوئے لگتے تھے اور ہلکی سی حرارت لیے ہوئے تھے۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ موصوف آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہمارے پروٹوکول آفیسر یعنی فضل معبود خان آف قمبر کس طرح نووارد کو پہچانتے تھے۔ شمس کچھ دیر بیٹھے رہے۔ چائے پینے کے بعد رخصت ہوگئے۔ یہ ڈگر میں ہماری سروس کے ابتدائی سالوں کی بات ہے۔ اس دن کے بعد شمس اکثر آتے تھے، مگر میرے ساتھ اُن کی گفتگو محدود رہتی اور زیادہ تر فضل معبود آف قمبر اور فضل معبود آف سیدو شریف کے ساتھ گپ شپ لگاتے تھے۔ شاید مجھے اُن کے سیاسی نظریات سے اختلاف تھا، وہ ایک قوم پرست نوجوان تھے اور اس وقت کے این اے پی یعنی نیشنل عوامی پارٹی کے سرگرم رکن تھے۔ یہ این اے پی بعد میں پابندی لگنے کے بعد اے این پی کے نام سے سرگرم عمل ہوگئی، یعنی نیشنل عوامی کی جگہ عوامی نیشنل ہوگئی۔
اُن دنوں ہم سیدوشریف میں رہتے تھے اور ڈیوٹی ہماری ڈگر بونیر میں تھی۔ شمس کبھی سیدوشریف آتے، تو مرحوم فضل معبود کے ہاں ٹھہرتے تھے اور ہمیں کبھی اپنی میزبان کا شرف نہیں بخشا۔

شمس بونیری اپنے حجرے میں دیگر دوستوں کے ساتھ۔

کچھ عرصہ بعد شمس کا نام ایک دوسری قسم کی سرگرمیوں کے سلسلے میں گردش کرنے لگا۔ لیاقت باغ فائرنگ اور حیات شیرپاؤ کے قتل کے بعد جب این اے پی پر پابندی لگی، عبدالولی خان چند اعلیٰ رہنماؤں کے ساتھ جیل میں ڈالے گئے، حیدر آباد ٹریبونل نے جیل میں ان رہنماؤں کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع کی، تو دوسرے درجے کی قیادت افغانستان چلی گئی اور جو یہاں رہ گئے، اُن کے بارے میں یہ تاثر پھیلنے لگا کہ یہ جو آئے دن صوبہ میں دھماکے ہو رہے ہیں، یہ کالعدم نیشنل عوامی پارٹی والے کر رہے ہیں۔ بہت سے کارکن زیرِ زمین چلے گئے۔ شمس بھی ان میں شامل تھے۔ پولیس اور خفیہ ادارے اس کی گرفتاری کے لیے سرگرم تھے، مگر شمس تو چھلاوا بن گیا۔ ابھی ڈگر میں کسی نے دیکھا، تو اگلی خبر آئی کہ وہ تو پیر بابا میں نظر آیا تھا۔
ہمارے ایک ساتھی زرین داد زبردست قوم پرست تھے، مگر سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے کھل کر سامنے نہیں آتے تھے۔ وہ شمس کے بارے میں ایسی محیر العقول باتیں سناتے تھے کہ ہم اُس کو پرلے درجے کا گپ باز سمجھتے تھے اور پھر شمس کے بارے میں اطلاع آئی کہ وہ سرحد پار چلے گئے اور اعلیٰ قیادت کے ساتھ قیام پذیر ہیں۔ کئی سال گزر گئے میں نے شمس کے بارے میں کچھ سنا نہ کوئی خبر ہی آئی۔
پہلی خبر جو میں نے اُن کے بارے میں سنی وہ یہ تھی کہ موصوف قانون کی اعلیٰ تعلیم کے بعد وکیل بن گئے ہیں اور مقامی عدالت میں پریکٹس کرتے ہیں۔ پھر اُن کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں اطلاعات آنے لگیں۔ پہلے تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ کھلنڈرا سا لڑکا اس قدر سنجیدہ کام کرسکتا ہے، مگروہ واقعی ایک نامور ادیب شاعر کے روپ میں آگے بڑھنے لگا۔ ہماری ملاقات کوئی چالیس سال بعد ہوگئی۔ ایسے حال میں کہ وہ ایک عظیم مبارز، قوم پرست اور کہنہ مشق شاعرکی حیثیت سے ملک گیر شہرت کے حامل ہوگئے تھے۔
شموزیٔ میں ایک کتاب کے سلسلے میں ایک تقریب ہورہی تھی، جس میں مشہور اہلِ قلم، صحافی اور دانشور آ رہے تھے۔ ہمارے گاؤں کے ایک مانے ہوئے قام پرست اورسماجی رہنما متصرف خان مجھے ساتھ لے گئے۔ راستے میں مجھ سے ہمارے گاؤں کے ابھرتے ہوئے جواں سال شاعر اختر منیر نے پوچھا، کیا آپ شمس بونیری کو جانتے ہیں؟ میں نے اس خیال سے نفی میں جواب دیا کہ شاید اتنی مدت کے بعد شمس مجھے پہچانیں گے یا نہیں۔ اور اب جب کہ وہ ادبی دنیا اور سیاسی میدان کے دیرینہ کھلاڑی بن گئے ہیں۔ بہر حال جب ہم وہاں پہنچے، تو شمس ابھی تشریف نہیں لائے تھے۔ ہم بیٹھ کر اُن کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔ جب وہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ آئے اور سب سے علیک سلیک کے بعد آکر میرے ساتھ بیٹھ گئے۔ ہم دونوں اس طرح باتوں میں کھوگئے جیسے ہم کبھی بچھڑے نہیں تھے۔ ان کے خلوص اور چاہت میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا تھا۔ مجھے کسی اور جگہ جانا تھا۔ اس لیے بارہ بجے کے قریب سب سے رخصت لی۔ شمس نے پھر مجھے گلے لگایا اور جلد ملنے کا وعدہ کیا۔ وہ ایک بردبار اور پدرانہ شخصیت لگ رہے تھے۔ میں اُس کی خوبصورت آنکھوں کی وہ چمک اور سرخ ڈورے ڈھونڈتا رہا، مگر وہاں تو حسرت سی چھائی ہوئی تھی۔ شاید اُن کو اپنی جدوجہد کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں ملا۔
میں اُس عظیم قام پرست اور شہد جیسے لہجے والے شاعر کو سلام پیش کرتا ہوں۔

………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔