ریاست کی سول/ جوڈیشل تنظیم کے بارے میں بحث کے آخری نقطے یعنی مرکزی سٹ اَپ پر تفصیلی گفت گو سے پہلے یہ عرض ضرور کروں گاکہ لفظ ’’مشیر‘‘ کو مشاورت کے معنی میں نہ لیا جائے۔یہ رینک پہلے ’’حاکمِ اعلا‘‘ کے نام سے متعارف کیا گیا۔ بعد میں نائب وزیر کہلایا گیا، لیکن مختصر مدت کے اندر اندر مشیر کا رینک متعارف کیا گیا۔ یہ رینک ایک "Judicial/ Civil Administrative” پوسٹ تھا، جس کی تفصیل یہ ہے:
٭ مشیرِ کوز سوات۔
٭ مشیرِ برسوات۔
٭ مشیرِ بونیر جو ڈگر میں مستقل طور پر قیام پذیر تھا۔
٭ مشیرِ دفتر حضور( یعنی سیف الملوک مشیر صاحب)
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ ہر مشیر اپنے "Jurisdiction” کے لیے ’’اپیلنٹ کورٹ‘‘ تھا۔ وہ از خود بھی فیصلے لے سکتا تھا۔ یہاں پر ہر مشیر کے لیے الگ معاون قاضی نہیں تھا، بل کہ قاضی القضا کی سربراہی میں متعدد قاضیوں پر مشتمل شرعی عدالت تھی، جو ریفر کیے گئے مقدمات کا شرع کے مطابق فیصلہ کرتے۔
ایک ضروری بات جو رہ گئی، وہ فیصلہ جات رجسٹر ہے۔ ہر عامل اپنے دیے ہوئے فیصلے کا اندراج مع دستخط ایک رجسٹر میں بہ طور دستاویزی ریکارڈ کرتا۔ مذکورہ رجسٹر آج بھی ضلعی دفاتر میں حوالہ جات و تحقیق کے لیے پڑے ہیں، مثلاً:
دیگر متعلقہ مضامین: 
ریاستِ سوات دور کی سرکاری زبان بارے ایک ضروری وضاحت  
ریاستی دور کا سوات سنیما  
صنوبر استاد صاحب  
ریاستِ سوات دور کی ملازمت کیسی ہوتی تھی؟
عجب خان حاجی صاحب کی یاد میں 
٭ کتابِ فیصلہ جات حضور۔
٭ کتابِ فیصلہ جات وزیرِ مال۔
٭ کتابِ فیصلہ جات وزیر ملک۔
٭ کتابِ فیصلہ جات کشور خان مشیر۔
٭ کتابِ فیصلہ جات محمد مجید خان مشیر۔
٭ فیصلہ جات محکمۂ قضا وغیرہ۔
مزید براں سپہ سالار صاحب سید بادشاہ گل علاقہ کوہستاں کے مقدمات بھی سنتے تھے۔ اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپہ سالار کا عہدہ ختم کردیا گیا۔
سیدو شریف میں تعینات مشیر اپنی حدود میں قصاص شدہ مجرموں کی آخری لمحات کی نگرانی بھی کرتے۔اُن کی معاونت کے لیے ڈاکٹر بھی موجود ہوتے، جو قصاص شدہ کی موت کی تصدیق کرتے ۔
ریاست کے وزیرِ مال بھی بعض مخصوص تحصیلوں کے مقدمات میں اپیلیں سنتے تھے۔ ان تمام مذکورہ عدالتی حکام کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں حکم رانِ ریاست خود سنتے تھے۔اُن کی حیثیت ایک ایسے سپریم کورٹ کی تھی، جن کے فیصلوں کے خلاف اپیل یا نظرِ ثانی کا انحصار بھی اُن پر تھا اور اگر کوئی ریاستی باشندہ اپنا مقدمہ براہِ راست حکم ران کے سامنے رکھنا چاہتا، تو بھی اُسے حق حاصل تھا۔ مقدمے بازی کا رجحان بھی لوگوں میں کم تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔