سنہ 1962، 63ء کی بات ہے۔چکیسر میں ایک شادی کے موقع پر رات کو رقص اور موسیقی کا پروگرام تھا، جو کھلی جگہ میں ہورہا تھا۔ چند معزز صاحبان تو کرسیوں پر بیٹھے تھے۔باقی سب لوگ کثیر تعداد میں دائرے کی صورت کھڑے تھے۔ مَیں اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ نسبتاً ایک نیم تاریک کونے میں کھڑا تھا۔ ایک اعلا سرکاری فوجی عہدے دار کے ساتھ ایک صاحب بیٹھے تھے، جو رقاصہ کو بڑھ بڑھ کر خالی خولی داد دے رہے تھے، لیکن جن کے پاس پیسے تھے، وہ کبھی کبھار ایک ایک روپے کا نوٹ دے رہے تھے۔ رقاصہ مختلف اُردو، پشتو نغمے گارہی تھی۔ جب اُس نے یہ گانا شروع کیا: ’’اتنے بڑے جہاں میں کوئی نہیں ہمارا‘‘ تو وہ خالی خولی داد والا کہنے لگا: ’’ہم تمھارے ہیں، ہم تمھارے ہیں!‘‘
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
وہ اور جن کے وہ مصاحب تھے، ایک پرانے فوجی تھرماس سے قہوہ ایسے پی رہے تھے، جیسے کوئی وہسکی پی رہا ہو۔ مَیں نیا نیا چکیسر آیا تھا۔ 18، 19 سال کا لڑکا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اتنی دور رہ رہا تھا، مگر مَیں نے کئی دوست بنوا لیے تھے اور میرا وقت بہت اچھا گزر رہا تھا۔ مقامی خوانین بھی میرا بہت خیال رکھتے تھے، جن میں علقموت خان عرف ’’اکو‘‘ مجھ پر بہت مہربان تھے اور بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔
میرے ساتھیوں میں سے ایک نے طنزیہ لہجے میں رقاصہ سے ہم دردی جتانے والے کے بارے میں بتایا کہ یہ جولاہا ہے۔ مَیں نے جواباً کہا کہ مَیں نے تو یہاں سلام پور کی طرح کھڈے چرخے نہیں دیکھے۔ یہ جولاہا کیسے ہوگئے؟ تو اُنھوں نے کئی مقامی افراد کے بارے میں بتایا کہ وہ سب جولاہے ہیں۔ سب ایک ہی فیملی ہیں۔ اُن میں سے ایک تو ریاستی ہسپتال میں ملازم تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کا شخص تحصیل کے قریب ایک بڑا سا چھپر نما ہوٹل چلاتا تھا، جو اکثر عدالت کے اوقاتِ کار کے بعد خالی دکھائی دیتا تھا۔ اُسے ہم ’’نورئ ماما‘‘ کہتے تھے۔ اُس کا ایک بھانجا حضرت عمر نامی ہوٹل کا نوکر، بیرہ، آگ جلانے والا اور صفائی کرنے والا بس وہی ایک ہی تھا۔
ایک صاحب تھے سرفراز ماما، جو کبھی بمبئی میں رہ چکے تھے۔تھوڑا بہت لکھت پڑھت جانتے تھے، تو ہمارے ٹھیکے دار نے اُنھیں منشی رکھ لیا، 40 روپیا ماہوار پر۔
سرفراز اکثر بمبئی کی باتیں کرتے رہتے۔ اُن دنوں مَیں وہاں پر حاکم یا گورنر چکیسر کی عدالتی عمارت تعمیر کروا رہا تھا، جو شاید اب بھی موجود ہو۔ مَیں ریاست کے محکمۂ تعمیرات کے ایک فیلڈ ورکر کی حیثیت سے اُس کی نگرانی پر معمور تھا۔
حاکم کا عہدہ، ریاست کے انتظامی ڈھانچے میں بڑی اہمیت کا حامل تھا، جو ایک بڑے انتظامی عدالتی اور مالیاتی یونٹ کا سربراہ ہوتا تھا۔ مَیں جس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں، اُس وقت محمد شیریں چکیسر کے حاکم تھے۔ موصوف ایک تعلیم یافتہ اور بہترین منتظم تھے۔ انگریزی اخباروں کے رسیا تھے۔ ’’ڈان‘‘ اور ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے مستقل خریدار تھے۔
مَیں کبھی ان کے ہتھے چڑھتا، تو گھنٹوں اُن کی گفت گو سننی پڑتی۔ میرے بہت پیارے دوست ’’انور‘‘ اور ’’اشرف‘‘ کے والد تھے ۔
محمد شیرین حاکم چکیسر کو مَیں نے پہلی بار اپنے بچپن میں دیکھا تھا، جب وہ بہ طورِ حاکم بابوزئی سیدو شریف بال بچوں کے ساتھ منتقل ہوئے اور افسر آباد میں رہایش اختیار کی۔ اُن دنوں مَیں شگئی سکول میں پرائمری کلاسوں میں تھا۔ ان کے تین بیٹے خورشید، انور اور سب سے چھوٹے اشرف شگئی سکول میں پڑھنے لگے۔ اشرف بہت چھوٹے تھے۔ خورشید ہم سے عمر میں بڑے تھے اور انور میرے ہم عمر تھے۔
حاکم صاحب شاید ریاست کے واحد سول افسر تھے، جن کی اپنی کار تھی۔ یہ 38 ماڈل کی کنورٹ ایبل گاڑی تھی، جسے ایک ہینڈل کے ذریعے سٹارٹ کیا جاتا تھا۔ اُن دنوں سلف سٹارٹ گاڑیاں نہیں تھیں۔ حاکم صاحب ہر شام اپنے بیٹوں کو اُسی گاڑی میں سیر کے لیے لے جاتے تھے۔ وہ تھری پیس سوٹ اور سولا ہیٹ پہنتے تھے۔ بڑی شان دار شخصیت تھی اُن کی، مگر جب ہم کئی سال بعد چکیسر میں ملے، تو وہ بہت بوڑھے ہوچکے تھے۔ ان کا منھ پوپلا ہوچکا تھا۔ عدالت اور کھانے کے دوران میں پوری بتیسی لگواتے تھے۔ کان جواب دے گئے تھے۔ وہ میرے ساتھ اکثر گھنٹوں کھڑے ہوکر باتیں کرتے تھے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ بس اِک آدھ جملہ سمجھ آتا، تو پتا چلتا کہ کس موضوع پر بول رہے ہیں۔ والئی سوات کو اُن سے بہت محبت تھی اور اُن کی کئی درخواستوں کے باوجود اُن کو کام جاری رکھنے کا کَہ دیتے تھے۔
والئی سوات جب ولی عہد تھے، تو 1940ء کے ابتدائی سالوں میں وزیر برادران سے اقتدار کی کشمکش میں جَلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کے ساتھ گہرے تعلق اور ہم دردی کی پاداش میں جن افسروں کو مشکلات سے گزرنا پڑا، اُن میں محمد شیرین صاحب کے علاوہ امیر چمن خان نائب سالار اور فقیر خان نائب سالار بھی شامل تھے۔
چکیسر میں بھی جب حاکم صاحب عدالت آتے، تو سوٹ وغیرہ پہنتے۔اُن کے دفتر کے جو بڑے محرر تھے، اُن کا نام روخان تھا اور مرزا صاحب روخان کہلاتے تھے۔ بڑی نفاست پسند شخصیت تھے۔ صاف ستھرے کپڑے اور قراقلی ٹوپی پہنتے تھے۔
حاکم صاحب چکیسر کے قیام کے دوران میں صرف بیوی اور ایک دو خدمت گاروں کے ساتھ عدالت کے قریب ایک مکان میں رہتے تھے۔ اشرف اُن کے ساتھ ہوتے تھے۔ خورشید اور انور کبھی کبھی آتے اور چند دن گزار کر واپس چلے جاتے تھے۔
جب والئی سوات سالانہ دورے پر چکیسر آئے، تو مَیں اور حاکم صاحب نے اُن کو پہلے ریسیو کیا۔ والی صاحب نے ان کو کہا:’’کیسے ہو…… لیونیہ!‘‘ تو اُنھوں نے جواباً کہا: ’’کیسا ہوں…… آپ دیکھ لیں،مَیں اتنی منتیں کرتا ہوں کہ مجھے گھر جانے کی اجازت دے دیں۔ میں مزید ڈیوٹی نہیں کرسکتا، مگر شاید آپ مجھے مرنے تک رکھیں گے۔‘‘ والی صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا: ’’بس ایک سال اور گزارو۔ اگلی سردیوں سے پہلے پہلے تم کو گھر جانے کی اجازت دوں گا۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔