جو لیڈر جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں، اُن کا اگر بہ غور جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ سب نے آمریت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔
اکثر سوال اُٹھتا ہے کہ ہماری جمہوریت ہے کیا؟ تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ پاکستانی جمہوریت کسی طور جمہوری اور عوامی جد و جہد کی آئینہ دار نہیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اس جمہوریت کا مقصد ملکی وسائل پر ڈاکا ڈالنا اور اپنے سپوتوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھانا ہوتا ہے، جس کے لیے جمہوریت کے دعوے دار کوئی بھی حربہ آزمانے سے گریز نہیں کرتے۔ چاہے ملک و قوم کو اس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک قول کا مفہوم ہے کہ اگر کوئی مجھ سے کہے کہ چیونٹی کے منھ سے بھوسے کا یہ ذرّہ چھین لو، تو مَیں اس بات کو ترجیح دوں گا کہ تختِ خلافت چھوڑ دوں۔
صحرائے تھر میں بچے غذائی قلت کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ لوگ بے روزگاری اور مہنگائی کے سبب بچوں سمیت خود کُشیاں کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ عوام کے غم میں گھلنے والوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، تو یہ کہاں کی جمہوریت ہے؟
جمہوریت اور اسلام پسندوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ قول یاد نہیں رہا جس میں اُنھوں نے فرمایا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرتا ہے، تو حضرت عمر ذمے دار ہوگا۔
جنرل مشرف نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا، مگر یہ کیا بہروپ جمہوریت ہے کہ مشرف پر جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے کی فردِ جرم عائد کرنے کی بہ جائے صرف قانون شکنی کی مد میں فردِ جرم عائد کی گئی۔ گویا اقتدار کو چیلنج کرنا کوئی جرم نہیں، بلکہ عدلیہ کو چیلنج کرنا جرم ہے۔ مشرف پر قانون شکنی کی فردِ جرم عائد کرنے کا مقصد جمہوریت پسندوں نے آدھا وزن عدلیہ کے کاندھوں پر ڈالنا تھا۔
نواز شریف کو دوسری بار اگرچہ قانونی طریقۂ کار کے مطابق ہٹایا گیا، مگر سب کو معلوم ہے کہ وہ بھی غیر آئینی تھا۔ نواز شریف پریس کانفرنسوں اور جلسوں میں سوال کیا کرتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا……؟ لیکن مقتدر حلقے یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ نواز شریف کو عدالت نے غیر آئینی طور پر اور کسی کے اشارے پر اقتدار سے ہٹایا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی عدالت نے عہدے سے ہٹایا، تو قانونی تجزیہ کار اور پیپلز پارٹی کے رہنما اسے نظر نہ آنے والی مخلوق کی کارستانی قرار دتے رہے، لیکن اعترافِ جرم کرنے کو کوئی تیار نہیں۔
اپریل 2022ء کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا، تو عمران خان نے الزام عائد کیا کہ انھیں امریکہ کے ایما اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے عہدے سے ہٹایا گیا ہے، جب کہ بعض تجزیہ کاروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ عمران خان کو ذاتی مفادات کی خاطر اقتدار سے ہٹایا گیا۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ پی ڈی ایم اتحادی حکومت نے اپنے مقدمات کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو نہ صرف اقتدار سے ہٹایا گیا بلکہ آنے والے قومی الیکشن میں اُس کی کامیابی کا راستہ روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے۔ عمران خان کے خلاف توشہ خانے کا مقدمہ، ممنوعہ فنڈنگ کیس، عدت کے دوران میں نکاح کا مقدمہ، سائفر کیس، 9 مئی کے بعد دیگر لگ بھگ 200 کے قریب مقدمات بنائے گئے۔ توشہ خانہ، عدت کے دوران میں نکاح کرنے اور سائفر کیس میں عمران خان کو سزائیں بھی سنائی گئیں۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ قومی الیکشن کا اعلان ہونے کے باوجود تحریکِ انصاف کو جلسہ جلوس تو کیا کارنر میٹنگ منعقد کرنے تک سے روکا گیا۔ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر تحریکِ انصاف کے ورکروں کو گرفتار کرکے اُن کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ ملاکنڈ میں تقریر کرنے پر تحریکِ انصاف کے عہدے داروں پر چترال، دیر، باجوڑ، مردان، پشاور اور دوسرے اضلاع میں مقدمات درج کیے گئے۔ تحریکِ انصاف کے عہدے دار اور ورکر الیکشن مہم کی بجائے مقدمات بھگتتے رہے۔ تحریکِ انصاف سے اس کا انتخابی نشان ’’بیٹ ‘‘ تک چھینا گیا۔ حکم رانوں اور منصوبہ سازوں کو ادراک نہیں تھا کہ زمانہ بدل چکا ہے۔ پھر سب نے دیکھا کہ جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی مدد سے حکم رانوں کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا گیا۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
اُبھرتے ایشیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟  
صوبائی خود مختاری کیوں ضروری ہے؟  
چھانگا مانگا، کچے پکے کے ڈاکو اور بے بس عوام 
ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اور امریکی خفگی کی اصل وجوہات  
آخری موقع 
تیسری عالمی جنگ اور پاکستان  
8 فروری کو ہونے والے الیکشن میں تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو مختلف انتخابی نشانوں کے باوجود عوام نے ووٹ ڈالا، جس نے منصوبہ سازوں کو پریشان کردیا۔ منصوبہ سازوں نے راتوں رات فارم 47 میں نتائج کو تبدیل کر دیا۔ فارم 45 اور فارم 47 کی کہانیاں، لڑائیاں اور دھمکیاں سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ منصوبہ ساز یہ مانے کو تیار نہیں کہ الیکشن غیر منصفانہ تھے، مگر حقیقت سامنے آہی جاتی ہے۔
کچھ دنوں پہلے اسلام آباد کے ایک وی آئی پی ہوٹل میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حنیف عباسی اور سابق نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کے درمیان تلخ کلام ہوئی۔ حنیف عباسی نے انوار الحق کاکڑ کو طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ گندم کی درآمد میں اربوں روپے کمائے (رشوت لی) جس کے جواب میں سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ اگر مَیں نے فارم 47 کی بات کی، تو آپ کسی کو منھ دِکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔
ایک نگران وزیرِ اعظم جس کا کام صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد کرانا تھا کے منھ سے فارم 47 کی بات اعترافِ جرم کے برابر ہے۔ یوں نگران وزیرِ اعظم کے اس اعتراف پر اُس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے، مگر شاید حکم ران فارم 47 کے ڈر سے اُس کے خلاف کسی قسم کا قدم اُٹھانے سے ڈرتے ہیں۔
پاکستان ’’مسائلستان‘‘ کی بہ جائے اب ’’عدالتستان‘‘ بن چکا ہے۔ یہاں ہر سیاسی معاملے پر عدالت جایا جاتا ہے اور عدالت سے بھی بڑے دل چسپ فیصلے آتے رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت میں جو مسئلہ حل کیا جاتا ہے، تو اُسی کے بطن سے نئے قانونی مسائل جنم لیتے ہیں، جو مزید پیچیدگی کا سبب بنتے ہیں۔
نگران وزیرِ اعظم کے اعترافِ جرم کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ 8 فروری کے انتخابات صاف و شفاف تھے اور نہ موجودہ حکومت قانونی اور آئینی ہی ہے۔
بہ قولِ محسن بھوپالی
تلقینِ اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہِ طلب میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔