وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ وفاقی حکومت کا رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں مالی خسارہ 4 ہزار 337 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
حکومتی آمدن 5 ہزار 313 ارب روپے ہے، جب کہ اخراجات 9 ہزار 651 ارب روپے سے متجاوز ہوچکے ہیں، جب کہ ملکی قرضوں پر واجب الادا سود کی مد میں 5 ہزار 517 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائی کے علاوہ حکومتی اخراجات میں سرِ فہرست دفاع پر 12 سو 22 ارب، ترقیاتی منصوبوں پر 454 ارب روپے کے اخرجات ہیں۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
علاوہ ازیں سبسڈیز پر 473 ارب، پنشن ادائیوں پر 611 ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوئے ہیں۔
اس طرح حکومت کے سول امور چلانے پر 9 ماہ کے دوران میں 518 ارب روپے کے اخراجات آئے ہیں۔
وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ ہوش رُبا اعداد و شمار پاکستانی معیشت کی حالتِ زار کا اظہار کرتے دِکھائی دے رہے ہیں۔
قارئین! میری نظر میں پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کی چند نمایاں وجوہات ہیں، جو ذیل میں دی جاتی ہیں:
٭حکومتی آمدن و اخراجات میں عدم توازن:۔ حکومتی اخراجات کے مقابل ٹیکس وصولیوں کا کم ہونا، جس کو پورا کرنے کے لیے غیر ملکی قرضوں کی بھرمار جب کہ اخراجات کی مد میں غیر ملکی قرضوں پر سودپر خرچ ہونے والی رقم، دفاع، سبسڈیز اور پنشن کے اخراجات۔ ڈوبی ہوئی معیشت میں حکومتِ وقت کے نہ ختم ہونے والے اللوں تللوں کے اخراجات، وزرا کو تو چھوڑیں، بڑے بڑے بیوروکریٹس کے پروٹوکول دیکھنے لائق ہوتے ہیں۔ کاش! پاکستان کو قرضہ دینے والے اداروں کو غریبوں کو نچوڑنے کی بجائے اشرافیہ کے اللے تللوں پر اُٹھنے والے اخراجات میں کٹوتی کرنے کے احکامات صادر کرنے کی توفیق ہو۔
٭ برآمدات و درآمدات میں واضح فرق:۔ پاکستانی معیشت درآمدی نوعیت کی ہے۔ اوسطاً 12 سے 14 ارب ڈالر کا سالانہ تجارتی خسارہ ملکی زرِ مبادلہ کو متاثر کرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بسااوقات پاکستان جیسے زرعی ملک کو اپنی زرعی ضروریات پورا کرنے کے لیے گندم جیسی جنس بھی درآمد کرنا پڑتی ہے۔
٭ سیاسی عدم استحکام:۔ اس وقت حکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر براجمان ممبرانِ اسمبلی بہ یک وقت عام انتخابات میں دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں۔ پاکستان کا سیاسی نظام کس حد تک مستحکم ہے، اس کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج تک پاکستان کو کوئی منتخب وزیرِاعظم اپنے عہدہ کی آئینی مدت کو پورا نہیں کرپایا۔ ہر دو تین سال بعد ہماری سیاسی جماعتیں سڑکوں پر رونق جمائے دِکھائی دیتی ہیں۔
٭ دہشت گردی:۔ سوویت یونین کی افغانستان پر یلغار سے لے کر امریکہ کی جارحیت تک جہاں افغانستان عدم استحکام کا شکار ہے، وہیں پر اس کے نہ ختم ہونے والے اثرات پاکستان کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ کسی دور میں پاکستان کی مشرقی سرحد بھارت کی وجہ سے غیر محفوظ ہوا کرتی تھی، مگر آج پاکستان کی مغربی سرحد مشرقی سرحد سے زیادہ خطرناک ہوچکی ہے۔ آئے دن کی دہشت گردی نے پاکستانی معیشت اور سیاحت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں نہ صرف پاکستان کے اربوں ڈالر خرچ ہوچکے ہیں بلکہ لاکھوں پاکستانی لقمۂ اجل بن گئے۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
ایکس (ٹویٹر) پر پابندی، ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟  
اُبھرتے ایشیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟  
جعلی ادویہ اور ہم  
گندم سکینڈل، حکومت کہاں کھڑی ہے؟  
صوبائی خود مختاری کیوں ضروری ہے؟  
٭ غیر ملکی سرمایہ کاری:۔ کسی بھی ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا انحصار وہاں کے سیاسی استحکام اور امن و امان کی صورتِ حال کی مرہونِ منت ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی استحکام کے کیا ہی کہنے…… یہاں تو سی پیک جیسے عظیم منصوبے کی راہ میں ابھی تک روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی بہ دولت ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کی بہ جائے دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔
٭ خسارے میں چلنے والے حکومتی ادارے:۔ پاکستان ریلوے، پی آئی اے، این ایچ اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے اداروں کے نہ ختم ہونے والے خساروں کا بوجھ ملکی معیشت کی کمر کو مسلسل توڑ رہا ہے۔
٭ محکمانہ کرپشن:۔ ’’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘‘ کی سالانہ کرپشن رپورٹ چیخ چیخ کر پکار رہی ہے کہ پاکستان کے محکمے کس حد تک کرپشن کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔
٭ ٹیکس چوری:۔ پاکستان کی کروڑوں کی آبادی میں صرف چند لاکھ افراد ٹیکس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے تمام شہروں میں بڑے بڑے تجارتی مراکز میں اربوں روپے کا روزانہ کاروبار کرنے والے تاجروں میں صرف چند تاجر ہی ٹیکس نیٹ ورک کاحصہ ہیں۔ حقیقتِ حال یہی ہے کہ جو پاکستانی شہری ٹیکس نیٹ ورک کا حصہ نہیں، وہ پُرسکون زندگی گزار رہا ہے، جب کہ جو شہری ٹیکس نیٹ ورک کا حصہ بن جاتا ہے، حکومتِ وقت اس کو لیموں کی طرح نچوڑتی دِکھائی دیتی ہے۔
٭ بجلی اور گیس چوری:۔ آئے دن گردشی قرضہ کی خبریں سننے کو ملتی ہیں، جب کہ حالتِ زار یہ ہے کہ ہر شہر ہر گاؤں میں بجلی کی تاروں پر سرِعام کنڈے لگا کر سینہ تان کر بجلی چوری کی جاری رہی ہے۔ یہی صورتِ حال گیس چوری کی ہے۔ گیس اور بجلی کے اہل کار سب جانتے ہیں کہ بجلی اور گیس چوری کہاں کہاں اور کس طریقہ سے کی جارہی ہے۔ یقینی طور پر بجلی اور گیس چوری کی مد میں اربوں روپے کا نقصان نہ صرف پاکستانی معیشت کو بھگتنا پڑ رہا ہے، بلکہ بجلی اور گیس کے بلوں کی وجہ سے عوام الناس ذہنی مریض بنتے دِکھائی دے رہے ہیں ۔
٭ اسمگلنگ:۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر بھارت، ایران جیسے قریب ترین ہمسایہ ممالک سے تجارت نہیں کرسکتا۔ پاکستان جن ہمسایہ ممالک سے قانونی طریقۂ کار سے تجارت نہیں کرتا، مگر انھی ہمسایہ ممالک سے اسمگلنگ عروج پر ہے۔ اسمگلنگ کی مد میں اربوں ڈالر کا نقصان پاکستانی معیشت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی میں دو بڑی سیاسی حریف جماعتیں جس طرز پر ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر اکٹھی ہوئیں، اس طرز پر تمام سیاسی جماعتوں کو ’’میثاقِ معیشت‘‘ پر اکٹھا ہونا چاہیے۔ پاکستان میں طویل مدتی معاشی پالیسیوں کا نفاذ کیا جائے۔ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ اور ’’میثاقِ معیشت‘‘ پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، تاکہ ہر نئی حکومت معاشی پالیسیوں کو لے کر چلے۔ ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو بہتر کیا جائے۔ محکمانہ کرپشن اور بجلی گیس چوری اور ٹیکس چوری جیسے جرائم پر ملکی قوانین کے مطابق سزاؤں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اس طرح قرضوں کی بہ جائے دوست ممالک کی سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جائے۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نج کاری کی جائے۔پاکستان کے تمام ریاستی ادارے اپنے آئینی دائرۂ کار میں رہیں اور ایگزیکٹیوز کے دائرۂ اختیار میں مداخلت نہ کریں۔ حکومتی شہ خرچیوں کو ختم کیا جائے۔ یاد رہے سیاسی استحکام ہی معاشی استحکام کی ضمانت ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔