فوج کی طرف سے مقامی انتظامیہ کو اختیارات کی منتقلی

گذشتہ روز سوات کے سیدو شریف ائیر پورٹ میں ایک پُروقار تقریب میں سوات کے انتظامی اختیارات فوج سے سول انتظامیہ کو منتقل کر دئیے گئے۔ یہ ایک خوش آئند خبر ہے۔ ہم بحیثیت مجموعی سوات کے لوگ پاکستانی فورسز کی عظیم قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور انھیں مدتوں تک یاد رکھیں گے۔
رپورٹ کے مطابق اس آپریشن میں پانچ سو سے زائد آرمی کے جوان، ڈھائی سو کے قریب پولیس اہل کار اور تین ہزار سے زائد عام شہری شہید ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ چھے ہزار کے قریب عسکریت پسند مارے گئے ہیں جب کہ اس دوران میں ہونے والے مالی نقصانات کا کوئی تخمینہ نہیں بتایا گیا ہے۔ ہم سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو فخر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ مستقبل میں سوات پُرامن رہے گا۔
جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے سوات چاروں طرف سے محفوظ علاقوں کے ساتھ واقع ہے۔ اس کی سرحدیں کسی دوسرے ملک کے ساتھ ملی ہوئی نہیں ہیں۔ سوات کے لوگ فطرتاً امن پسند ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ادغام سے پہلے یہاں کی سرکاری آبادیاں، نظم و نسق، تعلیمی نظام اور صحت کی سہولیات کسی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں تھیں۔ ان فلاحی سہولتوں اور خوب صورت قدرتی مناظر کی وجہ سے سوات کو ’’مشرق کا سویٹزرلینڈ‘‘ کہا جاتا تھا۔
ریاستِ سوات کے پاکستان میں ادغام کے بعد اس کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ یہاں ترقیاتی تسلسل کو بحال نہیں رکھا گیا بلکہ انتظامی طور پر بھی یہ علاقہ گونا گوں مشکلات کا شکار رہا اور آخر میں ستم ظریفی یہ ہوئی کہ سوات کو مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کی ایسی دلدل میں پھنسوا دیا گیا کہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گی۔ یہ آئینِ پاکستان کے تحت ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
سوات میں حالیہ شورش کی وجوہات کیا ہیں؟ سوات میں شدت پسندوں کے لیے اتنا زیادہ اسلحہ اور گولہ بارود کہاں سے لایا گیا؟ اگر سوات میں طالبانائزیشن کے پیچھے دشمن ممالک کا ہاتھ ہے، تو اس وقت جب یہ ناسور پورے علاقے میں پھیل رہا تھا، ہمارے سکیورٹی اور خفیہ ادارے کیا کر رہے تھے؟ انھوں نے بروقت اس کا تدارک کیوں نہیں کیا؟ سوات کے لوگ جس اذیت سے گزرے ہیں اور عوام کے جو مالی اور جانی نقصانات ہوئے ہیں، اس کے ذمہ دار کون لوگ ہیں؟ سوات میں دہشت گردی کو پھلنے پھولنے میں کس کا ہاتھ ہے اور ریاستی اداروں نے فوری اور بروقت کارروائی میں تساہل سے کام کیوں لیا تھا؟
اس طرح ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ سوات کی بحالی کی مد میں جتنا روپیہ یا فنڈز باہر سے ریاستِ پاکستان کو ملے ہیں، وہ کہاں کہاں اور کیسے خرچ ہوئے ہیں؟ اس کی تفصیل بھی اہلِ سوات کے سامنے رکھی جانی چاہیے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جو فی الوقت اہلِ سوات کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سوات میں شورش بپا کرنے والے خفیہ ہاتھ کو آشکارا کیا جائے اور اس کی بہتر اور قابل عمل صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ایک غیر جانب دار کمیشن تشکیل دیا جائے جو سوات میں ہونے والی دہشت گردی کے اصل اسباب معلوم کرے اور اس پوری صورت حال کی انکوائری کرکے عوام کو اصل حقائق بتائے اور ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں، تاکہ آئندہ سوات اور اس کے قرب و جوار کے علاقے اس قسم کے حادثات اور کھلواڑ سے محفوظ رہ سکیں۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔