وادئی سوات اپنی فطری خوب صورتی کے ساتھ ساتھ تاریخی طور پر بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ علاقہ مختلف اقوام کی تہذیبی، ثقافتی اور سماجی اقدار کا گہوارہ رہا ہے۔ اس علاقہ پر مختلف ادوار میں مختلف اقوام نے اپنے رہن سہن اور بود و باش کے طور طریقے اور نقوش ثبت کیے ہیں، جن کے قدیم آثاروادی کے کونے کونے میں آج بھی موجود ہیں اور یہی آثارِ قدیمہ ان ادوار اور ان اقوام کی منھ بولتی تصویریں ہیں۔
منگورہ میں ’’ بُت کڑہ‘‘ کے مقام پر بُدھ مت کے بہت زیادہ آثار ظاہر ہوئے ہیں، جن کی کھدائی پہلی بار اٹلی کے مشہور ماہرِ آثارِ قدیمہ (آرکیالوجسٹ)پروفیسر ٹوچی نے 1956ء میں کی تھی، جس کے نتیجے میں بُدھ مت کے زمانے کی قدیم اشیا، نوادرات اور سکے برآمد ہوئے۔ اِن آثارِ قدیمہ میں بدھ مت کے عبادت خانے خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ علاقہ 1800 مربع میٹر پر پھیلا ہواہے، جو اصل میں اس شہر کی بہت بڑی عبادت گاہ تھا، جس میں شاہی محلات کے کچھ آثار بھی پائے گئے ہیں۔ یہاں ایک عالی شان اور عظیم اسٹوپا کے آثار بھی ملے ہیں جس کے گرد 250 چھوٹے اسٹوپا ایستادہ تھے۔ یہیں سے ہرے رنگ کے پتھر سے ترشے ہوئے قریباً سات ہزار مجسمے ملے ہیں، جو سب کے سب اس اسٹوپا کے چاروں طرف نصب تھے۔ چند چھوٹے اسٹوپا سے طلائی ڈبیاں بھی ملی ہیں جن میں مہاتما بُدھ کی خاک(راکھ) تبرک کے طور پر رکھی جاتی تھی۔ اس مقام کے کچھ آثار دوسری صدی قبلِ مسیح ؑ سے لے کر گیارھویں صدی عیسوی کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔
پروفیسر ٹوچی کی تحقیق کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت سوات (منگورہ) میں ایک بہت بڑا سیلاب آیا تھا، جس میں ان آثارِ قدیمہ کوبھی نقصان پہنچا تھا۔ پروفیسر موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ بُدھ مت کے دورِ عروج میں یہ علاقہ قریباً تین سو سال تک بُدھ مذہب کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔
سوات میں بت کڑہ کے بعد اُوڈی گرام گاؤں میں سب سے زیادہ قدیم آثار ظاہر ہوئے ہیں جو گیرا نامی مشہور پہاڑ کی چوٹی پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ہیں۔ اُوڈی گرام کا خاص مقام جسے یونانی مؤرخ ’’ایرین‘‘ نے اُورا (ORA) کا نام دیا ہے، چوتھی صدی قبلِ مسیح کے سکندرِ اعظم کے حملے کی یاد تازہ کرتاہے۔ اُوڈی گرام قلعہ سے جو قیمتی نوادرات برآمد ہوئے ہیں، ان میں ایرانیوں اور کشان حکم رانوں کے اثرات خاصے نمایاں ہیں۔ یہ اثرات دوسری صدی عیسوی سے تعلق رکھتے ہیں۔
محمودِ غزنویؒ کی فوج کے حملے کا قصہ جو گیارھویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتا ہے، کی تصدیق بھی ان خاص قسم کے قدیم نوادرات سے ہوتی ہے جو اُوڈی گرام کے آثارِ قدیمہ میں کھدائی کے دوران میں ملے ہیں۔ یہاں محمودِ غزنویؒ کے دور کی ایک مسجد بھی کھدائی میں دریافت ہوئی ہے جس سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ محمودغزنویؒ کی فوج سوات میں آئی تھی اور اس نے یہاں کے بُدھ راجہ گیرا کو شکست دی تھی۔ اس مسجد میں ایک کتبہ بھی برآمد ہوا ہے جو سپید سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے۔ اس پر لکھی عربی عبارت سے پتا چلتا ہے کہ محمودِ غزنویؒ کے ایک امیر شہزادہ الحاجب ابو منصور کے حکم سے یہ مسجد نوشتگین نے تعمیر کرائی تھی اور اس کی تعمیر کی تاریخ 640ھ ہے۔ اُوڈی گرام کے آثارِ قدیمہ ایک بڑے فوجی قلعہ کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔ شواہد اور روایات کے مطابق یہ قلعہ بدھ راجہ گیرا سے منسوب کیا جاتا ہے، جس پر گیارھویں صدی عیسوی میں محمود غزنویؒ کی فوج نے پیر خوشحال کی سرکردگی میں حملہ کیا تھا اوراُسے شکست دی تھی۔ واضح رہے کہ راجہ گیرا کو بعض مؤرخین نے ہندو راجہ قرار دیا ہے۔
منگلور گاؤں کے قریب جہان آباد میں (پُرانا نام شخوڑئی) ایک پہاڑکے دامن میں مہاتما بُدھ کا پتھر سے تراشیدہ ایک بہت بڑا مجسمہ غیر معمولی شہرت اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
دور دراز کے مقامات اور باہر کے ملکوں سے آنے والے سیاح، جن کو آثارِ قدیمہ سے ذرا سی دلچسپی بھی ہوتی ہے، جہان آبادمیں واقع مہاتما بُدھ کے اس نادر اور نایاب مجسمہ کودیکھنے ضرور جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے سوات کی حالیہ شورش کے دوران میں عسکریت پسندوں نے اس نادر مجسمہ کے چہرے کو مسخ کر دیا ہے۔ اسے دو دفعہ بارود کے ذریعے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن چوں کہ یہ بہت بلند پہاڑی چٹان پر کندہ ہے جس تک کسی خصوصی سہارے کے بغیر پہنچنا ممکن نہیں، اس لیے یہ مجسمہ مکمل تباہ ہونے سے بچ گیا ہے۔ آثارِ قدیمہ کے متعلقہ اعلیٰ اہل کاروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس قدیم تاریخی مجسمہ کی ضروری مرمت کو ممکن بنائے، تاکہ یہ قدیم تاریخی ورثہ محفوظ رہے(اب مذکورہ مجسمے کی مرمت ہوچکی ہے، مدیر ادارتی صفحہ)۔
سوات کے دیگر آثارِ قدیمہ میں نجی گرام، نیمو گرام، ایلم پہاڑ، پانڑ، بالی گرام، گوگدرہ، غالیگے، باراماغر، ملم جبہ، چکیسر، تیراتھ، قندیل، بحرین، کالام، ننگریال، میاں دم، دنگرام، کوکارئ، جامبیل، دیولئی، شاہ ڈھیرئی، ابوہا، ہیبت گرام اور سنگوٹہ وغیرہ کے قدیم آثار قابلِ ذکر ہیں۔
ان علاقوں میں بُدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے آثار بہت وسیع اراضی میں پائے جاتے ہیں، لیکن ان میں ذاتی طور پر عام لوگ کھدائی کرکے بہت سے قیمتی اور نادر نوادرات برآمد کرکے اندرونِ ملک اوربیرونِ ملک بڑے پیمانے پر سمگل کرتے ہیں۔ حکومت اور محکمہ آثارِ قدیمہ کا فرض ہے کہ وہ سوات میں پھیلے ہوئے آثارِ قدیمہ پر باقاعدہ کھدائی کاکام شروع کریں اور ان قدیم آثار سے برآمد ہونے والی نایاب اور قیمتی اشیا سوات میوزیم اور ملک کے دیگر عجائب گھروں میں محفوظ کروائیں۔ کیوں کہ یہ قدیم تاریخی ورثہ اور پُرانے آثار ملک عزیز کی قدیم جغرافیائی، سیاسی، تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی اقدار کے زندہ نمونے ہیں۔ (فضل ربی راہیؔ کی کتاب سوات سیاحوں کی جنت سے انتخاب)