وسائل کی منصنفانہ تقسیم

پیر کے روز 24 ستمبر کو اسلام آباد میں وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوا جس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلا اور وفاق اور صوبوں کے دوسرے اعلا حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک کو درپیش مسائل کے علاوہ صوبوں کو ان کے وسائل کے مطابق حق دینے پر بھی بات ہوئی۔ وزیر اعظم عمران نے اس موقع پر کہا کہ صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم منصفانہ اور شفاف انداز میں ہوگی۔
قارئین، اگر وزیر اعظم اپنی اس بات پر عمل کرتا ہے اور صوبوں کو ان کے وسائل کے مطابق حق ملتا ہے، تو یقینی طور پر اس سے وفاق مضبوط ہوگا اور چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کا اِزالہ ہوگا۔ مضبوط فیڈریشن کی ایک مثال ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے جو کہ 1789ء سے لے کر موجودہ دور میں 50 خود مختار ریاستوں کا ایک مظبوط فیڈریشن ہے۔ وہاں پر نہ صرف وسائل کے حوالے سے ریاستیں خود مختار ہیں بلکہ قانون سازی کے حوالے سے بھی ان ریاستوں کو مکمل خودمختاری اور آزادی حاصل ہے۔ اگر ایک فیڈریشن میں رہنے والی اقوام کو خودمختاری دینے سے کسی فیڈریشن کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا، تو آج امریکہ ’’سپر پاؤر‘‘ نہ ہوتا۔
اچھا ہوا کہ عمران خان نے سی سی آئی میٹنگ میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بات کی، لیکن آپ سب کو معلوم ہے کہ ہمارے صوبے کو بڑی طویل مدت تک اپنے شناختی نام سے بھی محروم رکھا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں جب آصف علی زرداری پاکستان کے صدر تھے اور اس صوبے میں اس وقت جب عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلا تھے، تو اس دور میں ہم ایک طویل جدوجہد کے بعد قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر اٹھارویں ترمیمی بل منظور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد ہمارے بے نام صوبے کو خیبر پختونخوا کا نام ملا، تومحض اپنا نام اور اپنی شناخت جیتنے میں کتنے سال لگے؟ اب آپ اندازہ لگایئے کہ اپنے حقوق اور وسائل جیتنے میں کتنے سال لگیں گے؟
اب خیبر پختونخوا کے وزیر اعلا محمود خان مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے لیے پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے اور انھوں نے خیبر پختونخوا کے بجلی کے خالص منافع کے حوالے سے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اے جی این قاضی فارمولے کے مطابق خیبر پختونخوا کو بجلی کا سالانہ خالص منافع دیا جائے۔ پختونخوا کے بجلی بقایہ جات کا تنازعہ بہت پرانا ہے۔ ہمارے بقایہ جات کا تنازعہ حل کرنے میں بھی بہت عرصہ لگا ہے۔ اس حوالے سے مختلف ادوار میں صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت کے مابین طرح طرح کے فارمولوں پر بات ہوئی اور 1990ء کی دہائی میں اس وقت جب محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے بعد میاں نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے، تو اے جی این قاضی فارمولے کے مطابق اس صوبے کے بجلی کے خالص منافع کے بقایہ جات پربات ہوئی، لیکن اس پر عملی کام نہیں ہوا۔ بعد میں پرویز مشرف کے دور میں جب اس صوبے میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی اور جماعت اسلامی کے سیراج الحق جب صوبائی وزیر خزانہ تھے، تو اس وقت اس حوالے سے مرکزی حکومت کے ساتھ کئی اجلا س ہوئیں ۔ آخرِکار ساری عمر کے بقایہ جات کا فیصلہ 110 ارب روپے پر ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ سالانہ 6 ارب روپے پر بجلی کے خالص منافع کا فیصلہ کیا گیا۔
قارئین، ایک سودس ارب روپے کے وہ بقایہ جات بھی وفاق نے قسطوں میں ادا کیے اور عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف کی پہلی صوبائی حکومت تک قسطوں کا وہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر اس وقت عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے وفاق سے مطالبہ کیا کہ یہ سالانہ چھے ارب روپے منافع تو 1996ء کے بجلی کی فی یونٹ قیمت کے حساب سے لگایا گیا ہے، اب مہربانی کرکے اس میں اضافہ کیا جائے۔ کیوں کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب بہت بڑھ گئی ہے۔ اس وقت وفاق نے یہ مسئلہ حل نہ کیا،لیکن پھر جب اس صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت آئی، تو اس دور میں وفاق سے یہ مسئلہ اٹھایا گیا اور بجلی کی خالص سالانہ منافع 18 ارب روپے تک بڑھایا گیا۔
اب وزیر اعلا محمود خان نے اے جی این قاضی فارمولے کے مطابق وفاق سے بجلی کے خالص منافع کے وصول کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح وزیر اعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ اس فارمولے کے مطابق خیبر پختونخوا کو اپنی بجلی کا منافع دینے پر غور کیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا وہ صوبہ ہے جہاں پر سب سے سستی بجلی پیدا ہوتی ہے جو کہ ہائیڈل پاور کے ذریعے بنتی ہے اور ماہرین کہتے ہیں کہ فی یونٹ ہائیڈل بجلی پر دو روپے فی یونٹ خرچ آتا ہے جب کہ تیل سے ایک یونٹ بجلی بنانے پر بیس روپے فی یونٹ خرچہ آتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں توانائی کا ایک مشترکہ نظام ہے اور مختلف ذرائع سے بنائی گئی بجلی کو نیشنل گرِڈ میں مجموعی طور پرشامل کیا جاتا ہے اور تیل کا سارا خرچہ بجلی کے مجموعی یونٹوں پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ یوں ہمارے پانی سے بنائی گئی بجلی پر بھی وہی ٹیکس لگایا جاتا ہے اور پھر کمرشل یونٹ سترہ روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ تو سترہ روپے پر خیبر پختونخوا کی بجلی فروخت کرنے کے حساب سے اس صوبے کی بجلی کے بدلے اس وقت ہمیں صرف اٹھارہ ارب روپے کا منافع دیا جاتا ہے۔ اب ہماری صوبائی حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ ہمارے پانی کی بجلی پر جو دو روپے فی یونٹ خرچہ آتا ہے۔ اسی حساب سے ہمیں اپنی بجلی کا منافع دیا جائے۔ اگر اس حساب سے خیبر پختونخوا کو بجلی کا خالص منافع ملتا ہے، تو پھر خیبر پختونخوا کو قریب قریب 80 ارب روپے کا سالانہ منافع ملے گا۔
اب اگر خیبر پختونخوا کو اپنی بجلی کی مد میں اپنا مناسب حق ملتا، تو ہمیں ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ پشاور میٹرو بس منصوبے میں شراکت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بجلی کے سالانہ 80 ارب منافع کی صرف ایک قسط پر ہم پشاور کی میٹروبس بنا سکتے تھے۔ جب یہاں پر پشتون، پنجابی، سندھی یا بلوچی کے حقوق اور وسائل کی بات ہوتی ہے، توکچھ ناسمجھ لوگ اسے لسانی تعصب سے تعبیر کرتے ہیں۔ اب ریاست کو اپنی سوچ تبدیل کرنی چاہیے، مضبوط فیڈریشن کے اصل تصور پر عمل کرنا چاہیے اور پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کو اپنے اپنے حقوق دینے چاہئیں۔
خیبر پختونخوا کی حکومت وفاق کے ساتھ تمباکو بورڈ کے حوالے سے بھی بات کرے گی۔ صوبائی حکومت چاہتی ہے کہ ٹوبیکو بورڈ بھی وفاق کے پاس نہ رہے اور اسے صوبے کے حوالے کیا جائے، تاکہ صوبہ خود اپنے تمباکو کی پیداوار کے لیے نرخ مقرر کرے۔ اس طرح اس صوبے کے تمباکو کے کاشتکاروں کا استحصال نہیں ہوگا۔
یوں خیبر پختونخوا کے اضافی پانی کا مسئلہ بھی ہے۔ صوبائی حکومت نے حکمت عملی تیار کی ہے کہ اس صوبے کا پانی جو دوسرے صوبے استعمال کر رہے ہیں، انھیں اس اضافی پانی کا بھی معاوضہ دیا جائے۔
حقوق کے اس مسئلے پر وفاق میں کسی ادارے کو پریشان نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ خیبر پختونخوا یا بلوچستان کے لوگ اسی ملک کے باشندے ہیں اور انہی لوگوں نے ہی پاکستان کی قومی اسمبلی، سینیٹ، فوج، عدلیہ، پولیس اور دوسرے اداروں میں جانا ہے۔ ریاستی اداروں کے لوگ خلا یا آسمان سے نہیں آئے بلکہ سارے ریاستی اداروں کے لوگ پاکستان کے ایک نہ ایک علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، تو اگر یہ لوگ خوشحال اور خودمختار ہوں گے، توان کی خوشحالی ریاست کی خوشحالی ہے۔ اگر یہ لوگ بلوچستان کے کچھ لوگوں کی طرح یا بنگال کے لوگوں کی طرح ہم سے ناراض اور خفا ہوں، تویہ عمل ریاست ہی کے لیے پریشانی کا باعث بنے گا۔ یورپ میں فرانس، جرمنی، ہالینڈ یا دوسرے ملکوں کے لوگ اس وجہ سے پُرامن زندگی گزار رہے ہیں کہ وہ قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور اپنے اپنے وسائل پر ان کا اختیار ہے۔
لہٰذا ہمیں بھی پاکستان میں بسنے والی ساری قومیتوں کو تسلیم کرنا چاہیے اور ان کو ان کے وسائل پر ان کے جائز حق کو صدقِ دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔