2 ستمبر 2003ء کو فرانسیسی پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کی جس کی رو سے اس ملک میں رہنے والی عورتوں کے حجاب اوڑھنے پر پابندی لگائی گئی۔ اس قانون میں کہا گیا کہ فرانس کی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والی عورت برقعہ، حجاب، سکارف اور دوپٹہ نہیں پہنے گی۔ کیوں کہ حجاب پہننے سے دہشت گردی کے خطرہ کے علاوہ اور بھی نقصانات ہیں۔ چناں چہ اس قانون کی منظوری کے بعد دنیائے اسلام میں تہلکہ مچ گیا۔ چوں کہ فرانس میں مسلمان اور خصوصاً عرب خواتین کی تعداد زیادہ ہے، لہٰذا اس فیصلہ سے ان مسلم خواتین میں بے چینی پیدا ہوئی۔ چناں چہ جولائی 2004ء میں اسلامی عالمی تحریکوں کا ایک بڑا اجتماع یوسف قرضاوی کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں فرانس حکومت کی اس قانون کی سخت مذمت کی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر سال 4 ستمبر کو ساری دنیا میں ’’حجاب کا عالمی دن‘‘ منایا جائے گا جب کہ مسلمانانِ عالم کے اس فیصلے اور جدوجہد کے برعکس کئی دوسرے یورپی ممالک میں بھی حجاب کے خلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اسلام، دینِ فطرت ہے۔ اس نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے عزت اور احترام کا مقام دیا ہے اور پھر اسے پردے اور حجاب میں رہنے کا حکم دے کر اس کی عزت اور نسوانیت کو چار چاند لگادیے ہیں۔
قرآنِ کریم کی کئی آیات میں مسلمان عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دے کر انہیں اپنی حیا اور شرم کے خیال رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسلام نے عورت کو تحفظ عصمت اور حیا کی جو ضمانت دی ہے دنیا کے کسی اور مذہب نے نہیں دی جب کہ مغرب میں عورت کو کمائی کا ذریعہ بنایا گیا، جہاں وہ کلب ڈانسر، ماڈل یا کسی دفتر میں باس کی سیکرٹری ہوتی ہے اور پردے سے بے نیاز ہوکر اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتی ہے۔
اس سلسلے میں ابوالاثر حفیظؔ جالندھری کے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں کہ مغرب کی تہذیب و حیا سے عاری معاشرے میں عورت کی حیثیت کیا ہے:
میخانوں میں ہے رنگ مے و جام اسی کا
کس کا لہو ہے بادۂ گلفام؟ اسی کا
تصویر کے پردے پہ بھی ہے کام اسی کا
اخبار کے صفحوں میں بھی ہے نام اسی کا
اور سازِ سیاست کی بھی دم ساز یہی ہے
ظاہر کبھی ہوتا نہیں جو راز یہی ہے
مگر ساتھ ہی حفیظؔ کی دوربین نگاہوں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ
ظاہر میں تو افرنگ ہے آباد اسی پر
باطن میں جو دیکھو تو ہے بیداد اسی پر
عورت کو جوانی میں بناتے ہیں تماشا
ڈھل جائے جوانی، تو سمجھ لیتے ہیں لاشا
اور پھر اسی سلسلے میں حفیظؔ نے مشرق و مغرب کا موازنہ اسی طرح کیا ہے۔
مشرق میں جو زینت ہے چھپانے کیلئے ہے
مغرب میں مگر جلوہ دکھانے کیلئے ہے
مشرق میں تو زن گھر ہی بسانے کیلئے ہے
مغرب میں یہ بے چاری کمانے کیلئے ہے
آزاد معیشت کے سرانجام کی خاطر
مجبور ہے محکوم ہے ہر کام کی خاطر
الغرض حفیظ (مرحوم) نے اس بارے اور بہت کچھ کہا ہے لیکن کالم کی تنگ دامنی آڑے آرہی ہے۔ شواہد سے ثابت ہے کہ مغربی دنیا کے ان اقدامات کے باوجود اسلام امریکہ اور یورپ میں تیزی سے پھیلتا جارہا ہے اور بہ قول شاعر
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
جتنا ہی دباؤگے اُتنا ہی یہ اُبھرے گا
درحقیقت پردہ ہی خواتین کی عصمت اور پاکیزگی کی علامت، عزت کا تحفظ اور ناموس کی ضمانت ہے۔ دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک میں مسلمان خواتین حجاب کا پورا خیال رکھتی ہیں جن میں سعودی عرب، ایران، افغانستان اور پاکستان وغیرہ شامل ہیں لیکن بعض اسلامی ممالک میں خواتین حجاب سے لاپروائی کرتی ہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ یہاں اعلیٰ سوسائٹی کی خواتین روشن خیال کی آڑ میں عموماً پردہ سے عاری نظر آتی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا خصوصاً پشتو فلموں، ٹیلی فلموں اور ڈراموں میں عورت کو جس لباس اور گٹ اَپ میں پیش کیا جاتا ہے، اس سے ہمارے معاشرے پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
قارئین کرام! لہٰذا بہ حیثیت مسلمان اور پشتون ہمیں اس طرف سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔