ماضی کی تابناک نشانی خاموش کھڑی مسلمانوں کے فنِ صناعی کو سلام پیش کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں توپیں اس جزیہ سے تیار کرائی گئیں جو اس وقت ہندو رعایا سے وصول کیا جاتا تھا۔ جزیہ کے طور پر ہر ہندو گھرانا سالانہ پیتل یا تانبے کا ایک برتن دیتا تھا۔ تانبے اور پیتل کے بھرت سے بنی یہ دیوہیکل توپ انہی برتنوں کو ڈھال کر بنائی گئی تھیں۔ ان توپوں کو شاہ نذر نامی کاریگر نے تیار کیا۔ دراصل یہ دو توپیں تھیں جو کہ 1757ء میں احمد شاہ ابدالی نے بنوائیں۔ احمد شاہ ابدالی دونوں توپیں کابل لے جانا چالتا تھا، مگر صرف ایک ہی لے جا سکا۔ زمزمہ یہیں رہ گئی۔

اس توپ کا شمار اٹھارہویں صدی کی تباہ کن توپوں میں ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی 14 فٹ ساڑھے 4 انچ اور نال کا قطر ساڑھے 9 انچ ہے۔ اس میں آہنی گولہ استعمال کیا جاتا تھا۔ 1761ء میں احمد شاہ ابدالی نے اسے پانی پت کی جنگ میں مرہٹوں کے خلاف استعمال کیا اور کابل واپس جاتے ہوئے لاہور کے گورنر کو دے دی۔ 1762ء میں یہ توپ سکھ جرنیل ہری سنگھ بھنگی کے قبضہ میں آگئی جس کی وجہ سے بھنگیوں کی توپ کے نام سے مشہور ہوئی۔
1818ء میں اس توپ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ملتان کے خلاف استعمال کیا۔ انگریزوں کے لاہور پر قبضہ کے بعد اسے پنجاب یونیورسٹی (اولڈ کیمپس) اور عجائب گھر کے درمیان بطورِ نمائش رکھ دیا گیا۔ برسوں ہزاروں لوگوں کو خون میں نہلانے والی زمزمہ توپ کے ارد گرد آج امن و آتشی کا مظہر سمجھا جانے والا معصوم پرندہ ’’کبوتر‘‘ اُڑانیں بھرتا نظر آتا ہے۔ بے شمار شہری ان کبوتروں کو دانہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔ (کتاب لَہور، لَہور ہے از عبدالمنان ملک صفحہ نمبر 72 اور 73 سے انتخاب)