قومی حکومت اور پی ٹی آئی

میرا ذاتی خیال ہے۔ غلطی کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا بلکہ معروض کے حالات اس کے مخالف رو میں بہے جا رہے ہیں۔ تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیوں کہ سیاسی بصیرت کے لیے سیاسی فہم اور تجربہ درکار ہوتا ہے۔ میرا سیاسی تجربہ اتنا نہیں کہ میں قومی پارٹیوں کو سیاست کا طریقۂ کار سمجھاؤں۔ کس پارٹی کو کس طرح سیاست کرنی ہے، وہ خود ہی اس کا طریقۂ کار وضع کرے گی۔ بحیثیت ایک لکھاری میں سمجھتا ہوں اور میں دعویٰ بالکل نہیں کر رہا کہ میں کوئی خاص قسم کا دانشور ہوں، بلکہ میرا خیال ہے کہ جو ذمہ داری میں اپنے کاندھوں پر محسوس کرتا ہوں، وہ سرِدست قارئین کے گوش گزار کرنا اپنا قومی فریضہ مانتا ہوں۔ اس نکتۂ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اس میں ایزادگی اور ترمیم کرنا پارٹیوں کا صوابدیدی عمل ہے۔ اس لیے اس کو تعصب کی بجائے محبت کا پرچار مانا جائے۔
پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ ہم پاکستان کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ مقابلہ بازی اور الیکشن اس لیے کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہی سارے دکھوں کا مداوا کرسکتے ہیں۔ ان کے پاس ہی پاکستان کے سارے معاشرتی بیماریوں کا علاج موجود ہے۔ وہی پاکستان کو بامِ عروج تک پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ساری پارٹیاں نظریاتی ہونے کے دعوے کرتی ہیں۔ لاکھوں کرڑوں روپے کے اشتہارات، جلسے جلوس، مظاہرے اور منشور اس کا ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ سیمنارز اور ورکشاپس، کسی چیز سے دریغ نہیں کرتے بلکہ یوں کہا جائے ان کو پاکستانی قوم کے غم سے رات کو نیند بھی نہیں آتی۔ پارٹیوں کو قوم کے مفادات عزیز ہیں۔ ان کے اپنے مفادات صرف اتنے ہی ہیں کہ کسی نے جتنے روپے الیکشن پر لگائے ہوں، ان کی وصولی کرتے ہیں۔ خیر، یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ پاکستان میں قومی حکومت کرنے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اگر پی ٹی آئی یہ کریڈٹ لینا چاہے، تو اس کے لیے اسے حکومت مل چکی ہے۔ نیا پاکستان اسی طرح ہی بن سکتا ہے۔
اب آتے ہیں اصل مضمون کی طرف کہ کس طرح قومی حکومت بنائی جائے؟ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ قومی حکومت کی داغ بیل ڈالنے اور نیا پاکستان بنانے کے لیے نیک شروعات کا اعلان کرے۔ پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر ون پوائنٹ ایجنڈا پر حکومت سازی کی جائے۔ ون پوائنٹ ایجنڈا کا مقصد حکومت کرنے کی ترجیحات مقرر کی جائیں۔ وزارتوں کی تقسیم الیکشن میں حاصل شدہ سیٹوں پر کی جائے۔ قانون سازی کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے۔ قوانین بنانے کا عمل بیورو کریسی کے تعاؤن سے عمل میں لایا جائے۔ بیورو کریسی کو ذمہ داری دی جائے۔
حکومت کرنے کے پیمانے روزِ اوّل سے طاقت کے زور پر اور زیادہ ووٹ لینے کے پیمانے تصور ہوتے ہیں۔ اس میں قومی حکومت کا تصور اگرچہ نیا نہیں ہے، اور جس پر حال ہی میں افغانستان میں عمل ہوچکا ہے۔ افغانستان میں تمام اپوزیشن رہنماؤں کو حکومت کا حصہ بنایا گیا تھا۔ لیکن یاد رہے کہ پاکستان میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں، شرفا، خوانین، ملکوں، وڈیروں اور مزارئیوں کے اپنے بادشاہ گریاں اس کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ فوج اور عدلیہ، بیوروکریسی ان سب سے ہٹ کر طاقت کے مراکز ہیں۔ میڈیا ابھرتا ہوا ستون ہے اور میڈیا کے طاقتور اداروں اور سیاسی پارٹیوں سے گہرے مراسم ہیں۔ میڈیا طاقتوروں اور سیاسی بازی گروں کے ہی گیت گاتا نظر آتا ہے۔ اب اس صورتحال میں قومی حکومت کا راگ الاپنا مضحکہ خیزخواہش لگتا ہے، مگر خواب دیکھنے پر پابندی نہیں۔
جہاں تک میرے ذاتی خیال کا تعلق ہے کہ پی ٹی آئی کو قومی حکومت بنانے میں پہل کرنی چاہیے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سے اس کے وقار میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہاں پر یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ کرپشن، ترقی، بجلی، ڈیم، پانی، دہشت گردی، تعلیم و صحت، مذہبی جنونیت، فرقہ واریت اور امن و امان وغیرہ پاکستان کے اصل حل طلب مسائل ہیں۔ ان تمام ایشوز پر پارٹیوں کے سرکردہ رہنماؤں کو ملانا یقیناً پاکستان اور اس کے اکائیوں کے لیے نیک شگون تصور ہوگا۔ جس سے علاقائی سلامتی اور آزاد خارجہ اور داخلہ پالیسی میں واضح تبدیلی آئیے گی۔
نئے صوبے بنانے کے لیے راہ ہموار ہوسکے گی۔ صوبوں کو مکمل اختیارات مل جائیں گے۔ خدا نہ کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ پی ٹی آئی رہی سہی کسر پوری کرکے صوبوں کو آئین میں دیے گئے اختیارات واپس لے لیں۔ قومی حکومت بنانے کی وجہ سے اداروں کو قانون کے تابع چلانا آسان تر ہوجائے گا۔ انصاف کا بول بالا ہوسکے گا۔ پڑوسی ممالک سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ قانون کی حکمرانی، میرٹ کی عزت، اداروں کا استحکام، مضبوط خارجہ پالیسی، ٹیکس چوری سے تحفظ صرف ایک آزاد اور قومی حکومت میں ممکن ہے۔ آخر ہم کب تک حقیقت کی پردہ پوشی کو ایمان کا حصہ قرار دے کر عوام الناس کو گمراہ کرتے رہیں گے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ فرد ہو یا ادارے، آئین کی بالا دستی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہوگا۔ ایسا ہوتا ہے تو مثبت آغاز سامنے ہے اور بہتر نتائج نکلنے کی قوی توقع ہے۔ بصورت دیگر عوام میں عدم اعتماد بڑھے گا۔ ریاستیں انصاف، مساوات اور جمہوریت کے بغیر گزارا نہیں کرسکتیں۔ ان امور پر عدم اعتماد تو بربادیوں کے دروازے کھولتا ہے۔ اب ہمیں سوچنا ہے اور عمل کرنا ہے، ورنہ ہاتھ کچھ نہیں آنے والا۔ صرف بلیم گیم اور بے چینی بڑھنے کا اندیشہ موجود ہے۔ اب بھی وقت ہے، ہوش سے کام لیا جائے، نہ کہ جوش اور نفرت سے۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔